امت مسلمہ اور اس کے تہوار

984

قومیں، ملتیں اور امتیں اپنے تہواروں سے بھی پہچانی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ انسان کی شناخت صرف غصے اور غم کی حالت میں نہیں ہوتی۔ انسان مسرت اور شادمانی کے اظہار سے بھی پہچانا جاتا ہے اور تہوار عقیدت و مسرت کے اجتماعی اظہار کی صورت ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر آسانی سے بتایا جاسکتا ہے کہ یہ قوم کیسی ہے اور کیسی نہیں ہے۔ کئی سال پہلے مغرب کے ایک صحافی نے ہندوئوں کے تہوار ہولی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہولی کے دن آدھے سے زیادہ ہندوستان پاگل ہوجاتا ہے اور کرسمس کے معاملات دیکھ کر خیال آتا ہے کہ سیدنا عیسیٰؑ کی قوم آپؑ کی تعلیمات سے کتنا دور نکل گئی ہے۔ کرسمس کی عمومی تقریبات میں مذہب کم اور کلچر زیادہ ہوتا ہے بلکہ کلچر بھی نہیں Cult-Ture۔
امت مسلمہ کے بنیادی تہوار صرف دو ہیں۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ نبی آخرالزماںؐ کی امت اور تہوار صرف دو۔؟ یعنی سال میں اجتماعی مسرت کے اظہار کے صرف دو مواقع؟ اس کی وجہ ہے۔ رسول اکرؐ نے فرمایا ہے کہ میری بعثت اور قیامت کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ میری دو انگلیوں کے درمیان فاصلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو امت قیامت کے قریب برپا کی گئی ہو اس کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ زیادہ بزرگی، زیادہ وقار اور زیادہ سنجیدگی اختیار کرے اور امت مسلمہ تو ویسے بھی امت وسط ہے۔
دنیا کی اکثر قوموں، ملتوں اور امتوں کے تہوار شخصیات سے متعلق ہیں اور اپنی اصل میں تاریخی ہیں۔ عیسائی دنیا میں کرسمس کی جو بھی اہمیت ہو مگر اس کا تعلق سیدنا عیسیٰؑ کے یوم پیدائش سے ہے اور اس کا منایا جانا نہ انجیل سے ثابت ہے نہ سیدنا عیسیٰؑ سے۔ ہندوازم میں تہواروں کی بھرمار ہے مگر ان کا تعلق بھی شخصیات سے ہے۔ جنم اشٹمی شری کرشن کا یوم پیدائش ہے۔ دسہرہ رام کی راون پر فتح کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ دیوالی رام کے فتح مند ہو کر گھر واپس لوٹنے کی یاد میں منائی جاتی ہے لیکن امت مسلمہ کے دونوں تہوار دین کی روح کا اظہار ہیں۔ دونوں اللہ تعالیٰ کا انعام ہیں اور دونوں عبد اور معبود کے مثالی تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ عیدالاضحی سیدنا ابراہیمؑ کی سنت کی یاد اور اس کا تسلسل ہے مگر وہ ان معنوں میں تاریخی نہیں جن معنوں میں کرسمس تاریخی ہے۔ عیدالاضحی پر الوہیت سرتاپا سایہ فگن ہے۔
عیدالفطر اپنی کیفیت اور اس کے اظہار میں رسول اکرمؐ کے تبسم کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرمؐ اظہار مسرت میں اتنا تبسم فرماتے کہ آپؐ کے دندانِ مبارک نظر آجاتے۔ مسرت کے اس اسلوب کی بزرگی، تقدیس اور ماورائیت پوری طرح عیاں ہے۔ آپؐ کو قہقہہ لگاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
قہقہے کے بارے میں جاننے کے لائق بات یہ ہے کہ اس میں شور ہوتا ہے اور جہاں شور ہوتا ہے وہاں معنی کم ہوتے ہیں اور جہاں معنی کم ہوں وہاں تقدیس اور بزرگی کیا ہوگی؟ قہقہہ کیفیت اور طبیعت کی سطح پر اندر سے باہر کی طرف لگائی گئی ایسی جست کی طرح ہے جس میں وجود کے مرکز سے رابطہ منقطع ہوجانے کا احتمال ہو۔ تبسم باہر سے اندر کی طرح لوٹنے کی کیفیت یا باطن ہی میں موجود رہ کر چراغ کی طرح روشن ہوجانے کی حالت ہے۔ معنی، تقدیس اور اسرار سے لبریز حالت۔
عیدالفطر کو روزوں کا انعام کہا گیا ہے۔ بندہ اپنے ربّ کے حکم پر اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق بندگی بجا لاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے شکر اور اظہار مسرت کے لیے ایک دن عنایت کرتا ہے، لیکن بندگی بجا لانے کی نوعیت کیا ہے؟
سال کے گیارہ مہینے انسان کو اس کی ذات کے اصل یا اس کے مرکز سے کچھ نہ کچھ دور کردیتے ہیں۔ انسان اصل سے جتنا دور ہوتا ہے اتنا ہی غیر حقیقی یا جعلی ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ذات کے مرکز سے دور ہو کر انسان جاتا کہاں ہے؟ وہ خارج سے زیادہ وابستہ ہوجاتا ہے۔ لیکن ایک ماہ کے روزے اسے رفتہ رفتہ اس کی اصل کے قریب لے آتے ہیں۔ یہی بات انسان کو انعام کا مستحق بناتی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اپنی اصل سے کٹ کر انسان غیر حقیقی اور جعلی ہوجاتا ہے اور غیر حقیقی اور جعلی لوگوں کو دنیا تک انعام کا مستحق نہیں سمجھتی اور سمجھتی ہے تو اس سے ہر طرف ظلم اور فساد پھیل جاتا ہے۔
انسان روح، نفس اور جسم کا مرکب ہے اور اسلام کی کوئی عبادت ایسی نہیں جو ان تمام سطحوں پر محیط نہ ہو۔ تمام عبادات نفس کی نفسیانیت اور جسم کی حیوانیت یا بہیمیت کا علاج کرتی ہیں۔ لیکن ان میں تصور اور خیال کی قوت زیادہ صرف ہوتی ہے۔ تاہم روزے میں بھوک اور پیاس حیوانیت کو تجربے کی سطح سے چیلنج کرتی ہیں اور روزے میں تصور، ارادہ اور تجربہ سب ایک ہوجاتے ہیں۔ روزے کی اسی کاملیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور اس کا اجر نہ جانے کتنا ہے۔
اقبال نے کہا ہے
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
یہ ایک انفرادی اظہار ہے۔ مگر رمضان المبارک میں پوری امت مسلمہ روزے رکھ کر یہی کہتی ہے۔ خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتی نہیں پیوند۔ یعنی یہ کہ ہم جسم ضرور رکھتے ہیں مگر ہم اس کی ضروریات اور خواہشات کے غلام نہیں ہیں۔ اس لیے کہ جسم ہماری اصل نہیں ہے۔ اصل تو روح ہے۔ جو امر ربّ ہے۔ ہم غیر اصل سے اور جعلی پن سے خدا کی پناہ طلب کرتے ہیں اور اصل سے رجوع کرتے ہیں۔ اس اجتماعی جدوجہد کا انعام عیدالفطر ہے۔ جو مسلمانوں کا تہوار ہے۔ جیسی امت ویسا تہوار۔ جیسا تہوار ویسی ہی اس کی مسرت۔ اور جیسی مسرت ویسا ہی اس کا اسلوب۔ حضور اکرمؐ کا تبسم اور عیدالفطر کی اصل مسرت میں عجیب مماثلت محسوس ہوتی ہے۔
نبی اکرمؐ کے زمانہ مبارک میں عہد کی مسرت کی توسیع کے کئی قرینے سامنے آئے۔ ان میں سے ایک صدقۂ فطر ہے اور دوسرا فنون حرب میں مہارت کا مظاہرہ ہے ایک کا تعلق مسلم معاشرے کی سماجی، اقتصادی اور اخلاقی بقا سے ہے اور دوسرے کا تعلق مسلم معاشرے کی ’’دفاعی تہذیب‘‘ سے ہے۔ یہ اصطلاح ہم نے شعوری طور پر استعمال کی ہے۔ خوشی کا مقام ہے کہ صدقہ فطر کی روایت، زندہ بھی ہے۔ توانا بھی ہے اور جاری بھی ہے۔ البتہ فنون حرب میں مہارت کے مظاہرے کی روایت مٹ چکی ہے یا مٹ رہی ہے۔
برصغیر میں آج سے ساٹھ ستر سال پہلے شائع ہونے والی کتب کو پڑھتے ہوئے ایسے حوالے نظر سے گزرتے رہتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت تھا جب کابل سے لے کر بھارت کی ریاست اترپردیش کے آخری کونے تک عیدالفطر کے دن مسلمان مقامی طور پر اس امر کا اہتمام کرتے تھے کہ کہیں جمع ہو کر فنون حرب میں اپنی مہارتوں کا مظاہرہ کریں۔ افغان معاشرے میں اگر تلوار اور نیزہ بازی کا مظاہرہ ہوتا تو پنجاب، بنگال، بہار اور یوپی میں کُشتی اور لاٹھی کے کمالات دکھائے جاتے تھے۔ سنا ہے ان جگہوں پر بعض دیہات میں اب بھی فن حرب کے مظاہرے ہوتے ہیں مگر ان کی نوعیت استثنائی مثالوں کی ہوگئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ مظاہرے عرب کلچر کی بازگشت نہیں۔ یہ مظاہرے رسول اکرمؐ کی سنت اور آپؐ کے ایک ارشاد گرامی کا حاصل ہیں۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کوئی حربی فن سیکھ کر اسے بھول جائے تو یہ گناہ ہے۔ چناں چہ مسلمان تلوار کیا لاٹھی چلانے کا ایک فن ’’پٹا‘‘ بھی سیکھ لیتے تھے تو سال میں ایک دن یعنی عیدالفطر کے روز اس کا مظاہرہ ضرور کرتے تھے۔
یہ سرگرمیاں عیدالفطر کی مسرت کی توسیع تھیں اور ان کی تہذیبی، ثقافتی اور سماجی اہمیت بھی غیر معمولی تھی۔ ان سرگرمیوں کی عدم موجودگی نے ہماری معاشرت میں وہ خلا پیدا کیا ہے جسے اب ہم سب ’’تفریح‘‘ کے ذریعے پُر کررہے ہیں۔ تہوار، تفریح اور تعطیل ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ حالانکہ مغرب میں اصلاً Holy Day کا مفہوم ’’یوم مقدس‘‘ ہے۔ چھٹی کا دن نہیں۔ تفریح کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اس سے طبیعت میں فرحت پیدا ہو مگر اب اس کا مطلب ایسی سرگرمی ہے جس سے وقت اچھا گزر جائے خواہ اس گزرنے والے وقت میں معنی ہوں یا نہ ہوں۔
دوسری اقوام کے تہواروں میں رنگارنگی بہت ہوتی ہے مگر معنی کی سطح پر ان کی سرگرمیاں اندر سے باہر اور مرکز سے دور بھاگنے کا مظہر ہیں۔ امت مسلمہ کے دونوں تہوار اس کے برعکس باہر سے اندر کی طرف رجوع کی علامت ہیں۔ بلاشبہ تصور اور عبادت کی سطح پر اب بھی یہ تہوار وہی ہیں جو کبھی تھے لیکن ان سے پیدا ہونے والی تہذیبی و ثقافتی اور سماجی میراث کا ایک اہم حصہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اس سطح پر عیدین اب ہمارے یہاں نئی فلموں کی نمائش کے آغاز کے دن ہیں۔ ٹی وی پر خصوصی ڈراموں اور میوزیکل شوز کی پیشکش کے یوم ہیں۔ اس سے قبل کے یہاں بھی تہذیبوں کے تصادم کا پرچم لہراتا ہوا نظر آئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہاں بھی ہم اپنی ’’فردوسِ گُم گشتہ‘‘ کی تلاش اور بحالی کی طرف مائل ہوسکتے ہیں؟ عیدالاضحی پر اونٹوں کی قربانی کرنے والوں کو اس سوال پر ٹھیر کر غور کرنا چاہیے۔