گھمسان کارن

647

نہ جانے وہ لوگ کن آنکھوں نے دیکھے ہوں گے جو خالی میدانوں میں شہر آباد کرتے ہیں ہمارے یہاں تو معاملات کے ذمے دار سب کچھ برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عدالتی فیصلوں سے ملک وقوم استحکام حاصل کرتے ہیں، مستقبل روشن ہوتے ہیں لیکن عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے 14مئی کے پنجاب میں الیکشن کے فیصلے نے ملک میں جاری سیاسی خلفشار، اضطراب اور آئینی بحران میں مزید شدت پیدا کردی ہے جس کے بعد ملک میں آئین وقانون کی حکمرانی اور انصاف کی عمل داری پسپائی کے ایسے راستوں پر چل پڑی ہے جس میں نہ عارضی قیام ہے اور نہ واپسی کی کوئی صورت۔ متنازع بینچ کا یہ فیصلہ آتے ہی تنازعات کا شکارہو گیا تھا۔ چیف جسٹس صاحب نے یکطرفہ فیصلوں سے خود کو جس بند گلی میں پھنسا لیا ہے اس کے بعد یہی ممکن ہے کہ وہ ایک دائرے سے نکل کر دوسرے دائرے میں قید ہو جا ئیں۔ حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے پاس اس فیصلے کے جواب میں متعدد آپشنز موجود ہیں جن کا عنوان گھمسان کے رن کے سوا کچھ نہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 14مئی کی تاریخ کو یکسر مسترد کردیا گیا۔ وفاقی حکومت کا موقف یہ ہے کہ تین رکنی بینچ کا فیصلہ اقلیتی فیصلہ ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سات رکنی بینچ کے چار ارکان پہلے ہی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملے میں چیف جسٹس کے از خود نوٹس لینے کے اقدام کو مسترد کرچکے ہیں جس کے بعد سوموٹو نوٹس خارج تصور ہوگا اس لیے اس فیصلے پر عمل نہیں کروایا جاسکتا۔ کابینہ کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے اس اقدام کو پارلیمان میں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بدھ کے روز الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن شیڈول کا اعلان کردیا گیا لیکن اس کے باوجود فہمیدہ حلقوں کا کہنا یہی تھا کہ 14مئی کو الیکشن کا کوئی امکان نہیں۔ معاملہ مفاہمت سے حل ہو یا مزاحمت سے الیکشن نہیں ہوں گے۔ حکومت سرپرائز دے سکتی ہے، وزارت دفاع سرپرائز دے سکتی ہے، وزارت خزانہ سر پرائز دے سکتی ہے، پارلیمنٹ سرپرائز دے سکتی ہے۔ الیکشن نہیں ہوں گے۔ جمعرات کو پارلیمنٹ کا سرپرائز بھی سامنے آگیا۔ قومی اسمبلی نے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کرنے کی قرارداد منظور کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ اقلیتی فیصلے سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ ایوان ایک ہی وقت میں ملک میں انتخابات کو مسئلے کا حل سمجھتا ہے۔ قرارداد میں سیاسی معاملات میں بیجا عدالتی مداخلت پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ایوان عدالت عظمیٰ کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کو پابند کرتا ہے کہ اِس خلاف آئین و قانون فیصلے پر عمل نہ کیا جائے۔
معاملات آپ الجھے ہیں کہ الجھائے گئے ہیں لیکن اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اب ستارے ہی فیصلہ کریں گے۔ ہر طرف تصادم ہی تصادم اور محاذ آرائی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اندر دیکھیے تو خوفناک بے تعلقی کے ساتھ مختلف رائے رکھنے والے برادر جج ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ معاملات کس حد تک خراب ہیں اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین نے ایک فیصلے میں عدالت عظمیٰ میں انتخابات التوا کیس سمیت تمام سیاسی مقدمات کی سماعت روکنے کی ہدایت کی تھی۔ اگلے روز عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار کی جانب سے اس فیصلے کو کالعدم کرتے ہوئے ایک سرکلر جاری کردیا گیا۔ جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے رجسٹرار عشرت علی کو ایک خط لکھا اور ان سے فوری طور پر عہدے سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ رجسٹرار کے پاس جوڈیشل آڈرکالعدم قرار دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس خط کی بنیاد پر وفاقی حکومت نے رجسٹرار عدالت عظمیٰ کو واپس بلوالیا۔ چیف جسٹس صاحب کی انا جسٹس فائز عیسیٰ کے اس مراسلے کی تعمیل پر پھڑک گئی۔ انہوں نے وفاقی حکومت کی کارروائی کو کالعدم کرتے ہوئے رجسٹرار کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔ یہی نہیںچیف جسٹس صاحب نے قاضی فائز عیسیٰ کے صادر کردہ فیصلے پر نظر ثانی کے لیے لیے جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں ایک چھے رکنی بینچ بھی تشکیل دی تھی جس نے پانچ منٹ کی کارروائی کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ کا وہ فیصلہ بھی ختم کردیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کو ختم کرنے کے لیے ایک ہی دن میں جونیر اور ہم خیال ججوں کو لے کر لارجر بینچ کا بننا اگر ایک طرف یہ ثابت کرتا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا فیصلہ درست تھا تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ برادر ججوں کے درمیان کس شدت کی محاذ آرائی پائی جاتی ہے۔
14مئی کا فیصلہ اگر فل بینچ نے کیا ہوتا تو کسی کو اعتراض ہوتا اور نہ ہی کہیں زیربحث آتا لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی انا کا شان وشکوہ اس کی تاب لانے پر کسی صورت تیار نہیں چاہے آسمان زمین پر آرہے۔ ملک کا بیڑہ غرق ہو جائے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر صرف مسلم لیگ ن ہی احتجاج نہیںکررہی جمعیت علماء اسلام، پی پی اور دیگر ہم خیال جماعتوں نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں تین رکنی بینچ پر جس شدت کے ساتھ جن الفاظ میں برہمی کا اظہار کیا وہ کوئی معمول کی کارروائی نہیں تھی۔ نواز شریف نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا جو کہا ہے وہ محض دھمکی یا ہوائی بات نہیں ہے۔ ریفرنس فائل ہوگا۔ مظاہر علی نقوی کے خلاف پہلے ہی ریفرنس موجود ہے۔ گوجرانوالہ بار نے اعلان کررکھا ہے کہ وہ جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کے خلاف ریفرنس دائر کریں گے۔ اندازہ کیجیے اگر ایک طرف چھے ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہو اور دوسری طرف ساتھی ججوں کے درمیان تقسیم اور نفرت اتنی گہری ہو تو عدالت عظمیٰ کی کیا صورت باقی رہے گی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی ہیئت کیا ہوگی۔ جسٹس بندیال اور جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ہوں گے تو سپریم جوڈیشل کونسل کی صدارت کون کرے گا۔ عدالت عظمیٰ کے اندر لڑائی نہ صرف بہت بڑھ گئی بلکہ عدالت عظمیٰ کے چاروں طرف پھیل گئی ہے۔
مارچ کے اواخر میں وفاقی کابینہ نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے اور عدالت عظمیٰ کے بینچوں کی تشکیل کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے بل کی منظوری دی جسے بعد میں پارلیمنٹ سے منظور کرالیا گیا جس کے بعد سوموٹو نوٹس کسی فرد واحدکی خواہش پر نہیں بلکہ سینئر ترین جج اب اس کا فیصلہ کریں گے۔ ازخود نوٹس پر اپیل کا حق بھی ہوگا۔ حکومت پارلیمنٹ کے اس بل کے منظور ہونے کی منتظر ہے جو صدر کے دستخطوں کے نہ ہونے کے باوجود بھی مقررہ میعاد پوری ہونے کے بعد ازخود رو بہ عمل ہو جائے گا۔ جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے عدالت عظمیٰ رولز میں ودیعت کردہ صوابدیدی اختیارات غیر موثر ہو جائیں گے۔ حکومت کے پاس یہ ایک بڑا آپشن ہے۔ اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد 14مئی کی تاریخ کا التوا آسانی سے ممکن ہوسکتا ہے۔
عدالت عظمیٰ اور حکومت کی لڑائی کسی ضابطے اور قانون کی پا بند نہیں رہی ہے۔ فریقین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ عدالت عظمیٰ سے تصادم کا گھمسان کے رن کی صورت اختیار کر لینا اگر حکومت کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے تو عدالت عظمیٰ میں بینچوں کی تشکیل اور جج صاحبان کا نام دیکھ کر ہی متوقع فیصلہ کا یقینی اندازہ کر لینا بھی اچھی بات نہیں ہے۔ ملک وقوم کے لیے اس صورتحال میں تباہی کے سوا کچھ نہیں۔