اہم اور برے عوام نہیں خواص ہیں

1010

جدید مغرب کے تماشوں میں سے ایک تماشا یہ ہے کہ اس نے قوموں کی تقدیر کی تشکیل کے سلسلے میں خواص کے بجائے عوام کو اہم بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ عربی کی ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے معاشرے کے بالادست اور طاقت ور خواص خراب ہوتے ہیں۔ پھر ان کو دیکھ کر عوام بھی بگڑ جاتے ہیں۔ مگر جدید مغرب نے اس خیال کو عام کیا، انقلاب لاتے ہیں تو عوام، حکومتیں تبدیل کرتے ہیں تو عوام، معاشرے اور نظام کی بنیاد ہیں تو عوام۔ اس پروپیگنڈے کا اثر پوری دنیا پر مرتب ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی دانش وروں کی اکثریت ہر وقت عوام، عوام کرتی رہتی ہے۔ محمد اظہار الحق ملک کے معروف شاعر کالم نویس اور سابق بیوروکریٹ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں عوام کی اتنی مذمت کی ہے کہ عوام معاشرے کی روح اور معاشرے کا دماغ بن کر سامنے آئے ہیں۔ محمد اظہار الحق کا کہنا ہے کہ عمران خان، نواز شریف اور آصف علی زرداری تھوڑی خراب ہیں خراب تو عوام ہیں۔ عوام ٹھیک ہوجائیں تو پورا معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا۔ انہوں نے اس سلسلے میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ان میں سے کچھ عمران کے مخالف ہیں۔
الزام بلکہ الزامات، عمران خان پر یہ ہیں کہ وہ یوٹرن لیتا ہے۔ دروغ گوہے۔ سازشی تھیوریاں پھیلاتا ہے۔ گجر اور بزدار جیسے افراد اس کی چھتری تلے تھے!
کچھ زرداری اور شریفوں کے مخالف ہیں۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ناجائز مال اکٹھا کیا ہے۔ پارٹیوں کو خاندانوں کے اندر قید کیا ہوا ہے۔ ٹیکس نہیں دیتے!
یہ سب کون ہیں؟ یہ جو عمران خان کو جھوٹا اور شریفوں اور زرداریوں کو چور کہہ رہے ہیں، یہ کون ہیں؟ یہ ہم عوام ہیں! ہم عوام کون ہیں؟ ہم عوام عمران خان سے زیادہ جھوٹے ہیں! ہم عوام شریفوں اور زرداریوں سے زیادہ چور ہیں! کیا آپ اسے مذاق سمجھ رہے ہیں؟ نہیں! یہ ایک انتہائی سنجیدہ بات ہے! صرف غور کرنے کی ضرورت ہے!
رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے۔ اشیائے خورو نوش کے نرخ کئی گنا بڑھ گئے ہیں! جو اشیا دکانوں اور گوداموں میں رمضان سے پہلے کی پڑی ہیں، ان کی قیمتیں بھی بڑھادی گئی ہیں! کیا اس حرام خوری کی تلقین عمران خان نے کی ہے؟ کیا نواز شریف اور آصف زرداری نے اپیل کی ہے کہ قیمتیں راتوں رات چڑھادو؟ کیا اسٹیبلشمنٹ اس کی ذمے دار ہے؟ عید آنے والی ہے۔ بچوں کے کپڑے، جوتے، ہر شے پہلے سے زیادہ مہنگی کردی گئی ہے! کوئی مانے یا نہ مانے، اس ملک میں سب سے بڑا جھوٹا، سب سے بڑا چور، عام آدمی ہے! یہ جو عام آدمی ہے، جمع جس کی عوام ہے اور واحد جس کی عام آدمی ہے، یہ عام آدمی انتہائی بے شرم، بے حیا، ڈھیٹ اور بددیانت ہے! یہ عام آدمی سیاست میں ہے نہ اسٹیبلشمنٹ میں! یہ نہ بیورو کریٹ ہے، نہ جرنیل! مگر یہ سب سے بڑا فرعون ہے! یہ اپنے جیسے دوسرے عام لوگوں کا سب سے بڑا دشمن ہے! یہ پھل بیچتا ہے تو جان بوجھ کر گندے پھل تھیلے میں ڈالتا ہے۔ یہ موٹر سائیکل چلاتا ہے تو پیدل چلنے والوں اور گاڑیاں چلانے والوں کے لیے خدا کا عذاب بنتا ہے۔ یہ ویگن اور بس چلاتا ہے تو ہلاکت کا پیامی بن کر چلاتا ہے، لوگ دور بھاگتے ہیں! یہ ٹریکٹر ٹرالی اور ڈمپر چلاتا ہے تو موت کا فرشتہ بن جاتا ہے۔ ٹریکٹر ٹرالیاں اور ڈمپر، بلامبالغہ سیکڑوں گاڑیوں اور ہزاروں انسانوں کو کچل چکے ہیں۔ یہ سرکاری دفتر میں کلرک بن کر بیٹھتا ہے تو سانپ کی طرح پھنکارتا ہے اور بچھوں کی طرح ڈستا ہے۔ یہ دفتر سے نماز کے لیے جاتا ہے تو واپس نہیں آتا۔ سائل انتظار کرکر کے نامراد ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔ آپ ڈاکخانے جائیے، بورڈ لگا ہوگا ’’ڈیڑھ بجے نماز کا وقفہ ہے‘‘۔ یہ وقفہ کب ختم ہوگا؟ کچھ معلوم نہیں! یہ عام آدمی دکاندار ہے تو گاہکوں کو اپنا غلام اور خود کو ہامان سمجھتا ہے۔ صبح جوتے خرید کر شام کو واپس کرنے جائیے، نہیں لے گا۔ واپس کرنا تو دور کی بات ہے، تبدیل تک نہیں کرے گا! اس کا گاہک بھی عام آدمی ہے۔ وہ دکاندار سے بھی زیادہ فریبی ہے۔ چیز اچھی خاصی استعمال کرکے واپس یا تبدیل کرنے آئے گا۔
یہ ہے وہ عام آدمی جو چاہتا ہے کہ عمران خان، نواز شریف، زرداری اور چودھری، سب کے سب راتوں رات عمر بن عبدالعزیزؒ بن جائیں۔ رات دن ان پر تنقید کرتا ہے۔ اسے پورا یقین ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی راہ راست پر ہے تو صرف وہی ہے اور باقی سب کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ سیاست پر، مذہب پر، ملکی نظام پر، امریکا پر اس کا کہا حرفِ آخر ہے۔ وہی بلند ترین اتھارٹی ہے۔ وہ بہت خلوص سے کہتا اور سمجھتا ہے کہ اگر ملک کو اس کی تجاویز کے مطابق چلایا جائے تو دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی!
جس دن یہ عام آدمی، آدمی سے انسان بن گیا تو اہل سیاست سے لے کر مقتدرہ تک سب ٹھیک ہوجائیں گے اور اس کے انسان بننے کی اُمید نہ ہونے کے برابر ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا، 27 مارچ 2023)
اقبال اردو کے تین عظیم شاعروں میں سے ایک ہیں۔ فکر عالم پر ان کی نظر گہری ہے۔ اقبال کی فکر اور شخصیت کا بنیادی حوالہ اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کا آئیڈیل ’’مرد مومن‘‘ ہے۔ اقبال کی شاعری مرد مومن کی تعریف سے بھری ہوئی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
٭٭
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
٭٭
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
٭٭
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
٭٭
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مومن ’’عام آدمی‘‘ نہیں ’’خاص آدمی‘‘ ہے۔ وہ خاص آدمی جو محبوب الٰہی ہے۔ جو اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔ جو پورے معاشرے کے لیے ایک ’’معیار‘‘ ہے۔ مومن کی اہمیت یہ ہے کہ اگر وہ معاشرے میں موجود نہ ہو اور معاشرے کا معیار نہ ہو تو معاشرہ برباد ہوجاتا ہے۔ جس طرح آج پوری دنیا اور مسلم معاشرے برباد ہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری میں جہاں ایک جانب مومن اور شاہین کو ’’ماڈل‘‘ بنا کر پیش کیا ہے وہیں دوسری جانب عوام پرستی کی جڑ یعنی جمہوریت کی مذمت کی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
٭٭
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
٭٭
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردے میں نہیں غیراز نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
٭٭
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
٭٭
مشرق و مغرب
یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری
نہ مشرق اس سے بری ہے نہ مغرب اس سے بری
جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ’’عوام‘‘ کسی اور کو کیا آسانی کے ساتھ پیغمبروں تک کو بھی نہیں پہچان پاتے۔ سیدنا نوحؑ ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے مگر جب طوفان نوحؑ آیا تو عوام کی عظیم اکثریت سیدنا نوحؑ کے ساتھ نہیں تھی۔ کوئی اور کیا سیدنا نوحؑ کا بیٹا تک سیدنا نوحؑ کے ساتھ نہیں تھا۔ ایک روایت کے مطابق سیدنا نوحؑ کے ساتھ صرف 40 اور ایک روایت کے مطابق صرف 60 لوگ تھے۔ کہاں ساڑھے نو سال کی پیغمبرانہ جدوجہد اور کہاں صرف 60 لوگوں کی قلب ماہیت۔ سیدنا لوطؑ کی قوم بھی سیدنا لوطؑ کے ساتھ نہیں تھی۔ یہاں تک کہ سیدنا لوطؑ کی بیوی نے اپنے شوہر کا ساتھ نہیں دیا۔ سیدنا موسیٰؑ چالیس دن کا وعدہ کرکے خدا سے ہم کلام ہونے اور الواح لینے گئے تھے۔ انہیں خدا نے وہاں چند روز مزید روک لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیدنا موسیٰؑ کے ’’عوام‘‘ سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کو پوجنے لگے حالاں کہ ان کے درمیان سیدنا ہارونؑ موجود تھے اور وہ ان کو روکتے رہ گئے۔ مگر وہ نہ رکے۔ سیدنا ابراہیمؑ نمرود کے سامنے تن تنہا کھڑے تھے۔ رسول اکرمؐ 13 سال تک مکہ میں تبلیغ کرتے رہے۔ آپؐ خاتم النبیین تھے۔ سردار الانبیا تھے مگر 13 سال میں آپ صرف چند سو لوگوں کو ایمان لائے پہ مائل کرسکے۔ مکے کے خواص اور عوام کی عظیم اکثریت اپنے کفر اور شرک سے چمٹی رہی۔ عوام کا مزاج یہ ہے کہ وہ طاقت پرست ہوتے ہیں۔ چناں چہ جب رسول اکرمؐ نے مکہ فتح کرلیا اور آپ ایک ریاست کے سربراہ بن کر سامنے آئے تو لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے جو معاشرہ تخلیق کیا وہ آپؐ کی سیرت طیبہ کے اثر کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ آپؐ کی سیرت کا اثر یہ تھا کہ ابوبکرؓ صدیق اکبر بن کر سامنے آئے۔ عمرؓ تاریخ میں فاروق اعظم کہلائے۔ عثمانؓ عثمان غنیؓ میں ڈھل گئے۔ علیؓ نے علی مرتضیٰ کا روپ اختیار کرلیا۔ صحابہ میں سے کئی ایسے تھے جو اسلام لانے سے پہلے بہت امیر تھے اور ہزاروں روپے کا لباس زیب تن کرتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد ان کے اہل خانہ نے انہیں گھر سے نکال دیا۔ اور وہ عام لباس اور معمولی رزق پر گزارہ کرتے دیکھے گئے۔ نبی پاکؐ کی سیرت کے اثر سے عام افراد کا یہ عالم ہوا کہ ایک عورت سے زنا ہوگیا۔ وہ رسول اکرمؐ کے پاس آئی اور اپنے گناہ کا اعتراف کرکے خود کہنے لگی کہ مجھ پر حد جاری کی جائے۔ رسول اکرمؐ نے اس سے کہا کچھ عرصے بعد آنا۔ وہ پھر کچھ عرصے بعد آئی۔ رسول اکرمؐ نے اسے پھر لوٹا دیا یہاں تک کہ اس کے یہاں اولاد پیدا ہوگئی۔ وہ پھر آئی اور رسول اکرمؐ نے اس پر حد جاری کی۔ لوگوں نے کہا کیسی بے وقوف عورت ہے رسول اکرمؐ نے بار بار لوٹایا تو نہ آتی۔ رسول اکرمؐ تک یہ تبصرہ پہنچا تو آپؐ نے فرمایا اس کی توبہ ایسی ہے کہ مدینے کے سارے گناہ گاروں کے گناہ دھونے کے لیے کافی ہے۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں مسلمان خوشحال ہوگئے تھے۔ چناں چہ معاشرے میں مہر میں زیادہ رقم دینے کا رجحان پیدا ہوگیا۔ سیدنا عمرؓ نے اسے روکنا چاہا تو ایک عام عورت نے بھری مجلس میں اس پر اعتراض کردیا اور کہا کہ جس چیز کی اجازت خدا نے قرآن میں دی ہے آپ اس پر پابندی کیسے لگا سکتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ عورت کے تبصرے سے خوش ہوئے اور انہوں نے مہر کی رقم متعین کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔
سقراط انسانی تاریخ کے عظیم ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ سقراط کی عظمت یہ ہے کہ سقراط سے پہلے فلسفہ خواص کی چیز تھا مگر سقراط نے اسے عوامی شے بنادیا۔ سقراط کی تعلیم کا طریقہ یہ تھا کہ وہ گلیوں اور بازاروں میں لوگوں کو روک کر کھڑا ہوجاتا۔ وہ ان سے پوچھتا تمہارے نزدیک صداقت کی تعریف کیا ہے؟ حسن کے معنی کیا ہیں؟ خیر کا مفہوم کیا ہے؟ لوگ ان موضوعات پر اپنی اپنی رائے دیتے۔ سقراط کی بات توجہ سے سنتا اور پھر آخر میں اپنے خیالات کا اظہار کرکے بتاتا کہ اصل بات کیا ہے؟ سقراط کے زمانے میں سو فسطائیوں کا ایک گروہ پیدا ہوگیا تھا۔ یہ لوگ امیروں سے پیسے لے کر انہیں فلسفہ پڑھاتے تھے۔ اس کے برعکس سقراط اپنی تعلیم کا معاوضہ طلب نہیں کرتا تھا۔ اس کا اسکول مفت اسکول تھا۔ سقراط کی دوسری عظمت یہ ہے کہ اس نے زہر کا پیالہ پی لیا مگر اس نے نہ اپنے خیالات پر معافی مانگی نہ قید سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ سقراط قید میں تھا تو اس کا ایک شاگرد اس سے ملنے آیا اور رونے لگا۔ سقراط نے پوچھا کیوں روتے ہو اس نے کہا آپ نے کوئی جرم نہیں کیا پھر بھی مارے جانے والے ہیں۔ سقراط نے کہا کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں کوئی جرم کرتا اور پھر مارا جاتا۔ سقراط کی ایک عظمت یہ ہے کہ اس نے افلاطون جیسی شخصیت کو پیدا کیا اور افلاطون نے ارسطو کو جنم دیا۔ اس طرح سقراط افلاطون اور ارسطو دونوں کے پیدا کرنے کا سبب ہے۔
معین الدین چشتی عظیم صوفیا میں سے ایک ہیں۔ ان کے ایک معاصر نے ایک دن ان سے کہا کہ آپ نے بیعت کی شرائط حد سے زیادہ نرم کردی ہیں۔ معین الدین چشتی نے کہا میں نے سنا ہے کہ جو لوگ میرے ہاتھ پر بیعت ہوجاتے ہیں وہ کبائر سے بچنے لگتے ہیں اور نماز پڑھنے لگتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر میں اسلام صوفیا نے پھیلایا۔ صوفیا نہ ہوتے تو آج برصغیر میں 60 کروڑ مسلمان موجود نہ ہوتے۔ مغل بادشاہ اکبر نے دین الٰہی ایجاد کرلیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکبر کے زمانے میں بے دینی عام ہونے لگی تھی۔ لوگ نماز اور روزے ترک کرنے لگے تھے۔ دربار کی مجالس میں اسلامی شعائر کا مذاق اُڑایا جانے لگا تھا۔ اس کے برعکس اورنگزیب عالمگیر ایک دین دار بادشاہ تھا۔ چنانچہ اس کے اثر سے عوام میں بھی دین سے محبت پیدا ہوئی۔ اورنگزیب علما کو بہت عزیز رکھتا تھا۔ چنانچہ معاشرے میں علما کا احترام بہت بڑھ گیا تھا۔
گاندھی سادہ زندگی گزارتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں چیزیں درآمد کرنے کے بجائے مقامی چیزوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ چنانچہ گاندھی کے فلسفہ ٔ سادگی کا یہ اثر ہوا کہ ہندوستاں میں کروڑوں لوگ گاندھی کے قتل کے چالیس پچاس سال بعد تک مقامی طور پر تیار ہونے والی کھدر کا لباس زیب تن کرتے رہے۔
قائداعظم کا تصور اخلاق بلند تھا چنانچہ قائداعظم کی سیاست میں ’’ذاتیات‘‘ کا کوئی دخل نہیں تھا۔ ایک دن لیاقت علی خان کو نہرو اور لارڈ ماونٹ بیٹن کی بیوی ایڈوینا کے عشقیہ خطوط کہیں سے مل گئے۔ انہوں نے قائداعظم سے کہا کہ ہمیں ان خطوط کو استعمال کرنا چاہیے مگر قائداعظم نے کہا کہ یہ نہرو کی ذاتی زندگی ہے۔ چنانچہ قائداعظم جب تک زندہ رہے پاکستان کے عوام نے کبھی رہنمائوں کی ذاتیات میں دلچسپی نہیں لی۔ بھٹو، جنرل ایوب اور جنرل ضیا الحق میں ہزاروں برائیاں ہوں گی مگر یہ لوگ مالی کرپشن میں مبتلا نہیں تھے۔ چنانچہ ان کے زمانے میں لوگ مالی کرپشن کو برا سمجھتے تھے مگر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی کرپشن نے کروڑوں لوگوں کے لیے کرپشن کو ’’معمولی چیز‘‘ بنادیا ہے۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام خواص کی نقل کرتے ہیں جیسے خواص ہوتے ہیں عوام ویسے ہی ہوجاتے ہیں۔