امن وامان کا چیلنج

521

میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں ماہ سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کے دوران 360 افراد گرفتار کر کے 73 مارٹر گولے 93 دستی بم، 78 کلاشنکوف، 40 پستول، 10 آرپی جی 1014 رائفل اور 5 دیگربھاری ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔ اسی طرح شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان میں کارروائیوں کے دوران 33 شدت پسند بھی مارے گئے ہیں۔ دوسری جانب خیبر پختون خوا میں پولیس اور سیکورٹی اداروں پر ہونے والے پے درپے حملوں کے متعلق انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختون خوا اختر حیات خان کاکہنا ہے کہ صوبہ کے دیگر اضلاع کی نسبت جنوبی اضلاع میں دہشت گردی کی واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے جو کے پی پولیس کے لیے ایک بڑ اچیلنج ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہماری جواں ہمت پولیس قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کررہی ہے جو ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ واضح رہے کہ خیبر پختون خوا پولیس پچھلے چند ماہ سے ایک بارپھر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور یکے بعد دیگرے مختلف اضلاع میں پولیس کو فائرنگ اور بم دھماکوں کے ذریعے ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران پولیس پر 25 حملے کیے گئے ہیں جن میں ڈی ایس پی رینک کے 2 افسران کے علاوہ 125پولیس اہلکار بھی شہید ہوگئے ہیں جب کہ ایک حالیہ حملے میں پاک فوج کے ایک بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی کو بھی چاردیگر سیکورٹی اہلکاروں کے ہمراہ وانا جنوبی وزیرستان میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس ضمن میں جاری اعدادو شمار کے مطابق جنوری 2023 کے دوران خیبر پختون خوا پولیس پر حملوں کے 15 واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں 116 پولیس اہلکاروں وافسران نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 189زخمی ہوگئے تھے۔ اسی طرح فروری کے مہینے میں پولیس پر 3حملوں کے واقعات پیش آئے جن میں 2 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ مارچ کے مہینے میں پولیس حملوں کے 7واقعات رپورٹ کیے گئے جن میں 7پولیس اہلکاروں اور افسران کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ اس طرح ان تین ماہ میں 25حملوں میں 125پولیس اہلکار اور افسران جاں بحق جبکہ 212زخمی ہوئے۔ واضح رہے کہ ملک سعد شہید پولیس لائنز پشاور میں رواں سال جنوری میں خودکش دھماکہ کیا گیا جس میں 100سے زائد پولیس اہلکار اور افسران شہید ہوگئے تھے۔
خیبر پختون خوا میں جاری تشدد کی نئی لہر کے دوران ایک نئی واردات میں پشاور میں گڑھی عطاء محمد دیر کالونی میں مسلح موٹر سائیکل سواروں نے سکھ پنساری دیال سنگھ ولد ہر دیال سنگھ سکنہ ضلع خیبر حال دیر کالونی کو دکان کے اندر فائرنگ کر کے قتل کر دیا اور فرار ہوگئے۔ مقتول دیال سنگھ کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ رمضان میں سستے داموں اشیاء فروخت کرتا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق دیال سنگھ قتل کا واقعہ ٹارگٹ کلنگ تھایا ذاتی عناد و دشمنی کا شاخسانہ اس حوالے سے تحقیقات کے بعد ہی حقائق سامنے آسکیں گے جب کہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے اب تک صوبے بھر میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے 28افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ اس واقعہ پر سکھ برادری کے افراد نے غم و دکھ کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح کے ایک اور واقعے میں پشاور کے علاقہ پشتہ خرہ میں نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے ایک مسیحی باشندے کو قتل کر دیا اور فرار ہو گئے۔ واقعہ بنارس آباد میں پیش آیا جہاں مقتول کے بھائی نوید مسیح نے پولیس کو بتایا کہ اس کا بھائی کاشف مسیح ولد اعظم مسیح کارپوریشن کالونی میں کلیز تھا اور وہ دوپہر کو ڈیوٹی کرنے کے بعد واپس گھر جارہا تھا اس دوران نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کردی جس کے نتیجہ میں وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا جبکہ نامعلوم افراد ارتکاب جرم کے بعد جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے۔ مقتول کی عمر تقریباً 35 سال تھی جو اکیڈمی ٹاؤن کا رہائشی تھا۔ بعد ازاں ایس ایس پی انوسٹی گیشن پشاور شہزادہ کوکب فاروق نے کرائم سین کا دورہ کیا اور متعلقہ پولیس اسٹیشن کے آپریشنل پولیس اور تفتیشی ٹیم کو واقعہ میں ملوث ملزموں کو گرفتار کرنے کی ہدایات دیں۔ اس حوالے سے ایس ایچ او پشتخرہ واجد نے بتایا کہ واقعہ کی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہے۔ فائرنگ کرنے والا مسلح شخص اکیلا تھا جوسی ڈی 70موٹرسائیکل پر آیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کو ٹارگٹ کلنگ قرار دینا قبل از وقت ہوگا۔ ادھر اکیڈمی ٹائون میں مسیحی باشندے کے قتل کیس کی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہے تاہم اب تک کیس میں کوئی اہم پیش رفت نہیںہو سکی ہے۔ ان واقعات کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ سمیت مختلف سوالات اٹھ رہے ہیں جبکہ اقلیتی برادری کے لوگ بھی خوف و ہراس کا شکار ہیں جنہوں نے حکومت سے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر تشدد کے عفریت پر قابو پانے کے بعد یہ جن بوتل سے پھر کیوں باہر آگیا ہے اور اس ضمن میں حکومت سمیت مختلف سیکورٹی اداروں سے کہاں کہاں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں یا ہورہی ہیں۔ خیبر پختون خوا میں جاری تشدد کی نئی لہر کے دوران پولیس، مسلح افواج کے علاوہ اقلیتی برادری کے فراد کو ٹارگٹ کرنے کا واضح مقصد صوبے میں بے چینی اور بے یقینی پیدا کرنے کے ذریعے صوبے اور ملک میں اقتصادی اور سیاسی بحران پیدا کرنا ہے لہٰذا توقع ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس صورتحال کا نہ صرف فوری نوٹس لیں گی بلکہ اس حوالے سے درکار بعض ضروری اقدامات بھی سائنسی اور ترجیحی بنیادوں پر اٹھائیں گی۔