عدلیہ کی تقسیم

1251

عدالتی اصلاحات کے نام پر عدالت عظمیٰ کے قواعد و ضوابط کے بارے میں ترمیمی قانون ایوان بالا سے بھی منظور ہوگیا ہے۔ اب یہ قانون منظوری کے لیے صدر عارف علوی کے پاس جائے گا جنہوں نے اس قانون کے وقت کے بارے میں تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔ ایک قانون کی منظوری کے مراحل اور اس کے ساتھ پیش آنے والے کئی واقعات نے سیاسی بحران کو عدلیہ کے درمیان انتشار میں بدل دیا ہے۔ عدالتی اصلاحات کی ضرورت تو قومی زندگی میں ہر سطح پر محسوس کی جارہی تھی، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ قوانین شخصی و گروہی سیاسی مصلحتوں کی بنا پر بنائے جاتے ہیں۔ یہ قانون ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عدالت عظمیٰ میں پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے التوا کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فی الحال وفاقی حکومت اور ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ دونوں انتخابات نہیں چاہتے۔ اس فیصلے کی وجہ سے عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں کے درمیان داخلی تقسیم جو چھپی ہوئی تھی وہ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ بدنصیبی یہ ہے کہ اس کی بنیاد معاشرے میں موجود سیاسی تقسیم ہے۔ ازخود نوٹس اور سماعت کے لیے بنچوں کی تشکیل کے بارے میں حکومتی قانون سازی جو انتہائی جلد بازی میں کی گئی ہے اور بغیر کسی بحث و نظر اور غور وفکر کے منظور کیا گیا ہے، اس سے کوئی خیر برآمد نہیں ہوگا۔ سیاسی مصلحتوں اور شخصی مفاد کی بنیاد پر قانون سازی بگاڑ کا سبب ہوتی ہے۔ ابتدا میں یہ تاثر تھا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے عدالت عظمیٰ کی جانب سے حکومت پر دبائو کا جو خدشہ تھا اسے روکنے کے لیے نئی قانون سازی کی گئی ہے اور اس میں حکومت اور عدلیہ کے اندر سے بھی مدد حاصل ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے التوا کے خلاف عدالت عظمیٰ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے اور اسی کے ساتھ پی ٹی آئی کی درخواست کو سننے والے بنچ میں اختلاف کو قوم نے دیکھا ہے۔ ایک روز پہلے ازخود نوٹس کو مسترد کرنے کا تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کیا گیا، اس کے بعد عدالت عظمیٰ کے ایک اور فیصلے نے اس بات کو ظاہر کردیا کہ سیاسی بحران کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ فیصلہ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ہے جو مستقبل کے چیف جسٹس ہیں۔ انہوں نے ایک مقدمے میں فیصلہ دیتے ہوئے ازخود نوٹس کے تمام مقدمات کو قواعد و ضوابط طے ہونے تک موخر کرنے کا فیصلہ کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ قومی اسمبلی میں عدلیہ کے خلاف قرار داد بھی منظور کی گئی ہے جس میں عدلیہ کی سیاست میں مداخلت کی مذمت کی گئی ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ موجودہ متنازع قانون سازی کا پس منظر فوری طور پر انتخابات سے فرار ہے اور اس کے لیے اندر اور باہر کی قوتوں نے عدلیہ کے فاضل ججوں کے درمیان تقسیم کو استعمال کیا۔ لیکن آخری وقت میں مسودہ قانون میں یہ ترمیم شامل کی گئی کہ ازخود نوٹس کے دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل بھی دائر کی جاسکتی ہے۔ اس تبدیلی کے ذریعے حکومت نے میاں نواز شریف کی نااہلی کے خاتمے کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوا ہے۔ یہ اس معاہدے پر عملدرآمد کا تسلسل ہے جو شریف خاندان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہوا ہے۔ یہ قانون سازی پارلیمان کی بالادستی کے نام پر کی گئی ہے۔ ریاستی نظام کے تین ستون پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ ہیں۔ پارلیمان قانون سازی کرتی ہے، عدلیہ فیصلے دیتی ہے اور کسی اختلاف کی روشنی میں قانون کی تشریح کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ پارلیمان اور عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد کی ذمے داری سول بیورو کریسی اور ملٹری بیورو کریسی پر عائد ہوتی ہے، لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ دستور سازی سے قبل ہی ملٹری بیورو کریسی نے اپنے جونیئر پارٹنر سول بیورو کریسی سے مل کر اختیارات اپنے پاس لے لیے، پارلیمان میں جو لوگ تھے انہوں نے مزاحمت ہی نہیں کی جبکہ عدلیہ، ملٹری، اسٹیبلشمنٹ کی بغاوت کو جائز قرار دیتی رہی لیکن اس عمل کو قوم نے قبول نہیں کیا۔ سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معزولی کے بعد وکلا نے بحالی کی جو تحریک چلائی اس میں کامیابی کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ آئندہ عدلیہ کسی غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام کو قانونی جواز عطا نہیں کرے گی، لیکن یہ معاملہ بھی قول و فعل کے تضاد کی قومی روش کے مطابق نظر آیا۔ سیاست داں اور سیاسی جماعتیں اخلاقی ساکھ کھو چکی ہیں، جس نے پارلیمان کی بالادستی اور اس کے تقدس کے تاثر کو مجروح کیا ہے۔ عملاً پارلیمان کا عُضومعطل ہے اور اس کا کردار طاقتور اداروں کے فیصلوں پر ٹھپا لگانے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اب تک معاملہ سیاسی بحران اور گروہی تصادم تک رہا ہے، لیکن اب پاکستان کا سیاسی بحران ناکام ریاست کی شکل میں تبدیل ہورہا ہے۔ قومی تباہی صاف نظر آرہی ہے۔ اس لیے کہ پالریمان، عدلیہ، ملٹری، سول بیورو کریسی تینوں اپنی ساکھ کھو چکے ہیں اس لیے اختلافات کے ساتھ امور مملکت کو چلانے میں ناکام ہیں اور سیاسی بحران کے حل کے لیے باہم تبادلہ خیال بھی نہیں کرسکتے۔