آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے معاشی اصلاحات پر اعتماد بحال کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن جولیا کوزک نے پاکستان کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو مہنگائی، پست شرح نمو، کم زرمبادلہ جیسے بڑے چیلنج درپیش ہیں۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ سیلاب نے معاشی مسائل گھمبیر بنائے ہیں۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے قرضوں کا معاملہ کیوں لٹکتا جارہا ہے۔ یہ ادارہ تو ملکوں کو مقروض بنائے رکھنے اور مزید دبائو ڈالنے کے لیے کئی شرائط کے ساتھ مزید قرضے دیتا رہا ہے اور دے رہا ہے، لیکن پاکستان کے معاملے میں آئی ایم ایف کا مسلسل نت نئی شرائط اور مطالبات پیش کرنا شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر حکومت نے پٹرول، گیس، بجلی مہنگی کردی۔ جس کے نتیجے میں ہر شعبے میں مہنگائی بڑھ گئی۔ ڈالر پر کنٹرول ختم کردیا۔ شرح سود بڑھادی۔ دوسرے ممالک اور اداروں سے قرض لینے اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی شرط بھی پوری کردی۔ غرض پاکستانی حکومت کو گھٹنوں کے بل جھکادیا اور ہر شرط پوری ہونے کے بعد آئی ایم ایف بالکل نئے سرے سے کوئی بات کرتا ہے۔ تازہ مطالبہ معاشی اصلاحات پر اعتماد میں لینے کا ہے۔ یہ وہ مطالبہ ہے جو قرض کی درخواست دیتے ہی کیا گیا تھا اس کی نگرانی کی گئی تھی اس کے بعد منی بجٹ میگا بجٹ کی شکل میں پیش کیا گیا، سبسڈیز ختم کردی گئیں، لیکن اب جب کہ اسٹاف کی سطح کا معاہدہ ہونے کی بات شروع ہوئی تو بنیادی مطالبہ کردیا گیا جولیا کوزک سے یا آئی ایم ایف سے بات کرنے والے پاکستانی وزیرخزانہ اسحق ڈار یا وزیراعظم شہباز شریف اتنی تو جرأت کریں کہ ان سے پوچھیں کہ یہ جو سوال کیا گیا ہے اس کے جواب میں تو حکومت نے اتنے اقدامات کیے ہیں پھر نئے سرے سے یہ سوال کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا آئی ایم ایف نے قرض کو اپنے کسی پسندیدہ حکمران کی آمد تک روک رکھا ہے۔ جوں ہی وہ حکمراں آئے شرائط بھی نرم کردی جائیں اور قرض بھی جاری کردیا جائے۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے چھوٹے بڑے تمام ملکوں میں اپنے پروگرام کے ذریعے مداخلت کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں عوام کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکمراں اور فوجی ڈکٹیٹر سب مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں لیکن عالمی اداروں کے سامنے یہ سجدہ ریز ہیں۔ اس وقت بھی یہ ظاہر ہورہا ہے کہ آئی ایم ایف گزشتہ 8 ماہ سے صرف کھیل میں مصروف ہے۔ اگر پاکستانی حکمرانوں کے اعتماد اور اعتبار کی بات کی جائے تو آج تک آئی ایم ایف سے قرض لینے والوں میں سے کون سا حکمران قابل اعتبار رہا۔ یہ حکمران تو پاکستانی عوام کے اعتبار اور اعتماد پر کبھی پورے نہیں اُترے بلکہ یہ ہمیشہ عالمی اداروں کے اعتماد پر پورے اُترے ہیں۔ ان اداروں کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کی دی ہوئی رقم عوام تک پہنچ رہی ہے یا نہیں، اس کا استعمال وہی ہورہا ہے یا نہیں، انہیں اس سے غرض ہوتی ہے کہ ان کی رقم کی واپسی کی کیا ضمانت ہے۔ رقم واپس مل جائے گی یا اس کے عوض کوئی چیز گروی رکھ دی جائے گی تو وہ نیا قرض دے دیتے ہیں۔ حکومتوں کے اعتماد سے انہیں کوئی غرض نہیں اور عوام کی فلاح سے بھی… یہ تو بہت موٹی سی بات ہے کہ اگر ساری دنیا کے غریب ممالک کے عوام خوشحال ہوگئے، حکومتیں کرپشن سے پاک ہوگئیں اور کسی ملک کو قرض کی ضرورت نہیں رہی تو آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی کیا ضرورت رہ جائے گی۔ لہٰذا انہیں بدعنوان حکمران ہی اچھے لگتے ہیں، ایک تو ان کو دبانا آسان ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ وہ بے ایمانی کرکے رقم خوردبرد کریں گے تو نیا قرضہ لینا ہوگا۔ لہٰذا معاملہ اب حکمرانوں کی جرأت کا ہے وہ آئی ایم ایف کی شرائط مان مان کر سارا بوجھ عوام کی جانب منتقل کررہے ہیں لیکن جرأت کا مظاہرہ کرکے آئی ایم ایف کو رخصت کرنے اور اپنے اثاثوں کو ملک کے مفاد میں استعمال میں لانے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ یہ اوپر والے قربانی دیں تو عوام بھی قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کریں گے۔ لہٰذا حکومت فوری طور پر آئی ایم ایف سے قرض کے بارے میں حتمی فیصلہ کرلے، اپنی دولت ملک لائے اور آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دے۔ اتنا تو صاف نظر آرہا ہے کہ نیا قرضہ وہ پی ڈی ایم کو نہیں دینا چاہتے۔