انتخابات سے فرار کی کوشش

1101

صوبائی الیکشن کمشنر سعید گل نے پنجاب میں سیکورٹی کے غیر مناسب انتظامات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریٹرننگ افسران کو سیکورٹی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت پنجاب نے سیکورٹی کے اطمینان بخش انتظامات نہ کیے تو الیکشن کمیشن کو خط لکھا جائے گا۔ صوبائی الیکشن کمشنر نے مزید کہا کہ حالات ایسے ہی رہے تو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔ انتخابی سرگرمیوں کے دوران میں امن وامان کے حالات خراب ہورہے ہیں۔ اطمینان بخش سیکورٹی انتظامات نہ کیے تو انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے دفتر صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب اور ریٹرننگ افسر کے دفاتر میں فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے کی بار بار یقین دہانی کرائی گئی تھی، لیکن کاغذات نامزدگی وصول کروانے کے مرحلے پر ہی صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب اور ریٹرننگ افسران کو سیکورٹی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو الیکشن شیڈول معطل کرنا ہوگا، امن وامان کی صورت حال خراب ہورہی ہے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے اگر اطمینان بخش انتظامات نہیں کیے گئے تو وہ الیکشن کمیشن کو خط کے ذریعے آگاہ کریں گے کہ ان حالات میں جبکہ پنجاب حکومت اپنے فرائض سرانجام دینے سے پہلوتہی کررہی ہے ایسی صورت میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ صوبہ پنجاب میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل شروع کردیا ہے، تمام بڑی جماعتوں نے انتخابی فارم جمع کرانے بھی شروع کردیے ہیں لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور مختلف ادارے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے فرار کی کوشش کررہے ہیں۔ وفاقی وزارت خزانہ، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے الیکشن کمیشن کی جانب سے مانگی جانے والی تمام خدمات فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ وزارت خزانہ نے اخراجات ادا کرنے اور داخلہ و دفاع نے حفاظتی اقدامات سے معذرت کرلی ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے مسائل خود حل کرے۔ صوبہ خیبر پختون خوا کے گورنر نے صدر پاکستان سے مشاورت کے بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے 28 مئی کی تاریخ دے دی ہے۔ تاہم انہوں نے بھی الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے سیکورٹی کی صورت حال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی حکومت، پنجاب کی نگراں حکومت اور کے پی کے کے گورنر کے رویوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات یقینی نہیں ہے کہ دونوں اسمبلیوں کے انتخابات آئین میں دی گئی مدت کے مطابق ہوجائیں۔ یہ بات راز نہیں ہے کہ تحریک انصاف کے سوا تمام بڑی جماعتیں انتخابات سے فرار چاہتی ہیں۔ اس عمل میں سیاسی قوتوں کے ساتھ مقتدر اور طاقتور ادارے بھی شامل نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو کسی بھی جگہ سے تعاون نہیں مل رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کے سائے ختم ہونے میں نہیں آرہے ہیں۔ اس کی وجہ امن وامان کی صورت حال، دہشت گردی کے واقعات اور مالی مسائل بیان کیے جارہے ہیں۔ انتخابات سے بچنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی آئینی راستہ موجود نہیں ہے۔ اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو ملتوی کیا گیا تو نگراں حکومتوں کو کیسے جواز فراہم کیا جائے گا۔ جس طرح 90 دن کے اندر انتخابات کرانا آئین کا تقاضا ہے، اسی طرح نگراں حکومت کا مینڈیٹ صرف شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت اور سہولت کاری ہے۔ اسے بنیادی فیصلے کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے۔ اگر انتخابات ملتوی ہوئے تو نگراں حکومت کا وجود بھی غیر آئینی ہوجائے گا۔ انتخابات کے التوا کے لیے طاقتور حلقوں کی طرف سے پیسے نہ ہونے اور دہشت گردی کے خطرات کو سبب بیان کرنا عذرلنگ ہے جس طرح انتظامیہ اور عدلیہ کے اخراجات ہورہے ہیں اسی طرح انتخابات کے لیے بھی مالی وسائل فراہم کرنا حکومتی اداروں کا فرض ہے۔ جہاں تک بدامنی کا تعلق ہے تو ریاستی ادارے یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ ہم نے مختلف فوجی آپریشن کرکے دہشت گردی پر کامیابی سے قابو پالیا ہے۔ 2008 اور 2013ء میں جب انتخابات ہوئے تھے تو دہشت گردی موجودہ حالات سے زیادہ تھی اس لیے انتخابات کے التوا کے لیے کوئی جواز نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو مشترکہ طور پر انتخابی نتائج کا خوف ہے۔ اس وقت ملک جس سیاسی بحران سے دوچار ہے اس کا حل بھی انتخابات کا انعقاد ہے۔