اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اشرافیہ 4250ارب روپے کی سالانہ مراعات لیتی ہے
جو بات ایک عشرہ قبل ہلیری کلنٹن نے کہی تھی تقریباً وہی بات گزشتہ ماہ سعودی عرب نے کہی کہ پاکستان کو اشرافیہ سے بھی ٹیکس لینا ہوگا، تاہم ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی ایسا عندیہ نہیں ملا کہ وہ اس جانب متوجہ ہوگی۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایسے مشورے صائب ہیں، ان پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے؟ سب جانتے بھی ہیں کہ ملک کو معاشی ابتری اور دہشت گردی کے جن سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے، ان سے نمٹنے کے لیے سیاسی استحکام شرطِ لازم ہے، تاہم حالات مخالف سمت میں جاتے نظر آرہے ہیں۔ کثیرالجماعتی حکومتی اتحاد نے بگاڑ کی آخری حد کو پہنچی ہوئی معیشت کی بحالی کی ذمے داری اپنے سر لی تھی، لیکن وہ ابھی تک اسے اپنے پائوں پر کھڑا نہیں کرسکا، اور اب حکمران اتحاد میں اختلافات بڑھتے دکھائی دینے لگے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے وفاقی وزارتیں چھوڑنے کی دھمکی دی ہے۔ اُسے ڈیجیٹل مردم شماری پر بھی اعتراض ہے۔ کیا یہ اختلاف سنجیدہ ہے؟ یا پارلیمنٹ کی مدت بڑھانے یا انتخابات آگے لے جانے کی ایک کوشش؟ فی الحال تو وہ سیلاب متاثرین کے لیے فنڈز کی بات کررہی ہے کہ وعدے پورے نہ کیے تو ہمارے لیے اپنی وزارتیں باقی رکھنا مشکل ہوگا۔ وفاق نے 4.7 بلین کا وعدہ کررکھا ہے۔ حکومت کے ایک اتحادی مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت سے پنجاب اور خیبرپختون خوا کی اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرانے کا مطالبہ کردیا ہے کہ ملک میں غریب کو روٹی میسر نہیں اور الیکشن کے لیے 80 ارب روپے مانگے جارہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی مردم شماری اور انتخابی فہرستوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کررہی ہے۔ یہ مسائل وزیراعظم کے لیے سلجھانا آسان نظر نہیں آتا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی نفرت اور انتشار پر مبنی سیاست بھی ملک کے لیے مسائل کا سبب بنی ہوئی ہے، امریکی سازش سے قاتلانہ حملے تک وہ اپنے تمام الزامات اب واپس لے رہے ہیں لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم نہیں ہورہا۔ عمران خان کے خلاف فارن فنڈنگ اور کرپشن سمیت متعدد کُل75 مقدمات درج ہیں لیکن وہ ہر مقدمے میں مطلوب ہونے کے باوجود گرفتاری سے بچے ہوئے ہیں، اس کی وجہ صرف اور صرف سرپرست ہیں جو اب ایک ایک کرکے ان سے الگ تھلگ ہونا شروع ہوئے ہیں، لیکن پیمرا کا عمران خان سے متعلق فیصلہ بھی حکومت کے لیے ایک نیا دردِ سر ہے اور اس سے آزادیِ اظہار کے آئینی حق کا سوال بھی پیدا ہوا ہے۔ حالات اسی سمت میں آگے بڑھتے رہے تو سیاسی خلفشار میں مسلسل اضافہ یقینی ہے، اور آئی ایم ایف یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ قومی معیشت کو بربادی کی دلدل سے نکالنے کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے، لہٰذا حکمران اتحاد اور اپوزیشن کو مل کر یہ مسائل حل کرنے ہیں ورنہ روپیہ ڈالر کے مقابلے میں گرتا چلا جائے گا۔ حالیہ دنوں میں ایک ہی دن میں ڈالر کا ریٹ اٹھارہ روپے بڑھ جانے کا تعلق فلور ملز اور حکومتِ سندھ سے تھا۔ ملز ایسوسی ایشن چاہتی تھی کہ حکومتِ سندھ آٹے کی قیمت کو کنٹرول میں لانے کا اقدام نہ کرے، دوسرا ہتھوڑا اسٹیٹ بینک نے مارا کہ بنیادی شرح سود میں 3 فیصد کا نمایاں اضافہ کردیا، جس سے بنیادی شرح سود 17 سے 20 فیصد ہوگئی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ کاروباری کارٹل اس وقت ایک مافیا بنا ہوا ہے اور یہی اشرافیہ بھی ہے۔
معاشی مشکلات کا شکار پاکستان جون تک اربوں ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کی فکرمندی میں گھرا ہوا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ پانچ فی صد گرکر280 روپے پر آگیا ہے ، زرمبادلہ کے ذخائر سکڑ چکے ہیں اور افراطِ زر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ پاکستان ممکنہ دیوالیہ روکنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے امدادی قرضے پرانحصارکررہا ہے۔ جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے لیے ملک کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کا تخمینہ قریباً 11 ارب ڈالرلگایا گیا ہے، جس میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے درکار7 ارب ڈالر شامل ہیں۔ پاکستان کو فروری میں چین کے ترقیاتی بینک سے 70 کروڑ ڈالر قرض کی سہولت ملی ہے۔ چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے آئی ایم ایف کے سربراہ کو بتایا کہ چین کثیرالجہت کوششوں میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے تاکہ مقروض ممالک کی تعمیری انداز میں مدد کی جا سکے، ساتھ ہی انہوں نے تمام قرض دہندگان سے پاکستان کے بارے میں تعمیری کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا، اس کے بعد ہی آئی ایم ایف کے ساتھ آئندہ چند دنوں میں معاہدہ ہونے کا امکان پیدا ہوا، لیکن آئی ایم ایف کے حکام سے کئی ادوار کی بات چیت کے باوجود اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے آثار نہیں ہیں۔
حال ہی میں اقوام متحدہ ڈیولپمنٹ پروگرام (UNDP) کے نائب سیکرٹری جنرل اور ریجنل چیف کانی وگناراجا نے پاکستان کا دو ہفتے کا ورچوئل دورہ کیا اور اس کے بعد اپنی ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا کہ پاکستان کی اشرافیہ سالانہ تقریباً 4250 ارب روپے کی مراعات لیتی ہے، جس میں پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر کو 4.7ارب ڈالر کی مراعات ملتی ہیں جس میں ٹیکس چھوٹ، صنعتوں میں بجلی، گیس پر سبسڈی، مفت پیٹرول اور پلاٹ شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ جاگیردار، وڈیرے اور بڑے کاروباری خاندان سیاسی جماعتوں سے تعلق کی وجہ سے پارلیمنٹ میں پہنچ رہے ہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کی آبادی کا 2 فیصد امیر طبقہ ملکی دولت کے 50 فیصد پر قابض ہے، غریب طبقے کے پاس ملکی دولت کا صرف 7 فیصدہے۔ ان اعدادو شمارکے ساتھ پاکستان جنوبی ایشیا میں ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں افغانستان سے پہلے اور خطے کے 6ممالک سے نیچے ہے۔ دولت کی انتہائی درجے کی اس غیر مساوی تقسیم کے باعث سماجی مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ ملک کے اقتصادی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے مجموعی ریونیو میں سب سے زیادہ سود کی ادائیگی 32فیصد، دفاعی اخراجات 17فیصد، ترقیاتی منصوبے 15فیصد، گرانٹس ٹرانسفر 9فیصد، حکومت چلانے کے لیے اخراجات 8فیصد، سبسڈی 7 فیصد، ملٹری پنشن 4 فیصد، صحت 3 فیصد، تعلیم 2.3 فیصد، سول پنشن ایک فیصد اور تنخواہیں ایک فیصد شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا گورجیوا نے پاکستان میں غریبوں کے بجائے امیروںکو مراعات اور سبسڈیز دیے جانے پر شدید تنقید کی کہ پاکستان کو معاشی استحکام کے لیے اپنا ٹیکس نیٹ بڑھانے اور اشرافیہ کو عوام کے ٹیکس کی رقم سے غیر معمولی مراعات دینے کے بجائے غریبوں کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینی چاہیے۔ یہ ہے ملک کا اقتصادی اور معاشی نقشہ… اس پس منظر میں ہماری سیاسی جماعتیں، اشرافیہ، جاگیردار، وڈیرے اور غیرملکی ایجنڈے پر کام کرنے والے سیاسی راہنما عوام کے مفاد کے نام پر اقتدار میں آنے اور رہنے کی تگ و دو کررہے ہیں۔ ملکی حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ اب حالات کی آگاہی کے لیے دہائی دینے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی، سب کچھ عیاں اور ہویدا ہے، پانی ہمارے سر سے گزررہا ہے مگر کسی کو اس کی فکر ہے اور نہ ماضی کے کسی حکمران کو اس پر شرمندگی ہے۔ جنہوں نے ملک کو اس حال تک پہنچایا اور بحرانوں میں دھکیلا وہ اب بھی اقتدار کے لیے بے چین اور باہم دست و گریباں ہیں۔