غربت کے ناچنے کی وجہ

547

اس ارضِ پاک کے چودھریوں یعنی بابوں، حکومت کی بڑی شخصیتوں اور سیاستدانوں سے ایک سیدھا سادا سوال ہے کہ جب آپ عوام کو ریکو ڈک میں ہیرے سونے کے خواب دکھاتے ہوئے بغلیں بجاتے نہیں تھکتے تھے تو پھر یہاں غربت کیوں ناچ رہی ہے؟ پھر لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹیں کیوں غائب ہیں؟ پھر لوگ اسپتالوں میں گردے کیوں بیچتے ہیں؟ پھر کیوں نوجوان ڈگریاں جلا رہے ہیں؟ پھر کیوں خودکشیاں کر رہے ہیں؟ کیوں لوگ ملک سے باہر بھاگ رہے ہیں؟ اس لیے نہیں کہ پاکستان میں وسائل کی کمی ہے؟ بلکہ اس لیے کہ پاکستان پر چور اور مفت خورے ویلے مسلط ہیں۔ اگر حکومت واقعی غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے ان تجاویز پر غور کرنا چاہیے کیونکہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ یہاں طبقہ اشرافیہ مراعات یافتہ ہے اور قربانی غریب عوام سے لی جاتی ہے، اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
اس تمہید کے بعد اب آتا ہوں اس سے جڑے اصل مدعے کی جانب۔ وہ یہ کہ ایک سو ستر ارب روپے کے ٹیکس اقدامات پر مبنی منی بجٹ آنے کے بعد پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور جی ایس ٹی میں ایک فی صد اضافہ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا بلند ترین سطحوں تک پہنچنا اور گیس کے نرخوں میں حد سے زیادہ اضافے سے عام آدمی پر ناقابل برداشت حد تک دباؤ بڑھ گیا ہے۔ جی ایس ٹی کو 17 فی صد سے بڑھا کر 18فی صد کرنے کے فیصلے سے غریب عوام کے لیے تقریباً تمام ہی اشیا پہنچ سے دور ہوجائیں گی۔ دوسری جانب ملک میں سیاسی عدم استحکام مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے، جو معاملات پارلیمنٹ کے فورم پر حل ہوسکتے ہیں وہ عدالتوں میں جا رہے ہیں، یہ روش جمہوری روایات سے انحراف کے مترادف ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اس سال جی ڈی پی کی شرحِ نمو 2.5فی صد سے کم رہنے پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے، جمود کی شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے، ہمارے ہاں افراطِ زر کی شرح روزمرہ کی اشیائے خورو نوش کی قیمتوں اور روزگار کو متاثر کر رہی ہے۔ قوتِ خرید میں مسلسل کمی سے غریب اور مقررہ آمدنی والے افراد کے لیے بڑی مالی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ انھی حالات کا فائدہ گراں فروشوں نے خوب اٹھایا اور ہر چیز کئی گنا مہنگی صرف اسی بنیاد پر کردی گئی، چونکہ مقامی اور صوبائی حکومتوں کی عملداری ہمیشہ سے کمزور رہی ہے، لہٰذا مہنگائی کو عروج پر پہنچنے سے کون روک سکتا تھا۔
درست ہے کہ اس وقت 70کی دہائی میں ہونے والی مہنگائی کے بعد یہ دوسری بڑی مہنگائی کی لہر ہے جس سے اس وقت ملک گزر رہا ہے۔ اس میں بھی غذائی اشیا میں مہنگائی کی رفتار 34فی صد سے زیادہ ہے جب کہ اس وقت پاکستان ایشیا میں چھٹا ملک ہے جہاں افراط زر کی شرح میں اضافہ انتہائی تیز ہے۔ افراط زر کی موجودہ شرح یعنی 25فی صد بتائی جارہی ہے اور حقیقت میں یہ 30فی صد یا اس سے بھی زیادہ ہے، اگر پاکستان نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر ان اصلاحات پر عمل کیا تو یہ 35فی صد سے بھی اوپر چلی جائے گی اور اگر آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہوتا تو ملک میں افراط زر 50فی صد یا اس سے زیادہ ہو جائے گا۔
ملک کی معاشی حالت آخر کب سدھرے گی، یہ سوال آج کل ہر طرف سے پوچھا جارہا ہے لیکن کسی طرف سے اس کا جواب آرہا ہے
اور نہ ہی عوام کو مطمئن کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ گزشتہ پچھتر سال سے یہی کہا جارہا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال انتہائی نازک ہے، ملک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے، حیرت ہے پچھلے 75 سال سے نازک صورت حال ہی ختم نہیں ہو رہی جو بھی حکمرانی کے لیے آتا ہے وہ تو خوب پھلتا پھولتا ہے بلکہ آنے والی اپنی سات نسلوں تک کو سنوار لیتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو آپ احتساب کے لیے کسی پر بھی ہاتھ ڈالیں تو جمہوریت خطرے میں، ملک کا دیوالیہ ہو گیا جیسے الفاظ کہہ کرجان چھڑا لی جاتی ہے۔ عوامی فلاح و بہبود کے دعوے اپنی جگہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات ان سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے عوام کو حقیقی ریلیف ملنا ممکن ہی نہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سال 2021 کے قومی انسانی ترقیاتی جائزے (این ایچ ڈی آر) میں بتایا گیا کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6 فی صد حصہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پر صرف ہوتا ہے۔ یہ رقم ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اس جائزے میں جن تین گروہوں کو سب سے زیادہ مراعات حاصل کرنے والا بتایا گیا وہ بالترتیب کاروباری طبقہ، ایک فی صد امیر ترین افراد اور جاگیردار ہیں۔ کاروباری طبقے کی طرف سے لی جانے والی مراعات کا حجم تقریباً پونے پانچ ارب ڈالرز ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک فی صد امیر ترین لوگ ملک کی مجموعی آمدنی کے نو فی صد کے مالک ہیں جب کہ جاگیردار جو ملک کی آبادی کا ایک اعشاریہ ایک فی صد ہیں بائیس فی صد قابل ِ کاشت رقبے کے مالک ہیں۔ اس رپورٹ کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر واضح طور پر دو ریاستیں موجود ہیں ایک متوسط، غریب اور پس ماندہ طبقات پر مشتمل اور دوسری وہ جس کا نہ صرف وسائل پر قبضہ ہے بلکہ اقتدار و اختیار کی مختلف شکلیں بھی اسی کے زیرِ اثر ہیں اسی لیے کوئی چاہ کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
این ایچ ڈی آر میں دولت اور وسائل کی جس غیر منصفانہ تقسیم سے متعلق حقائق سامنے لائے گئے ہیں اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بیس فی صد امیر لوگ ملک کی تقریباً نصف (انچاس اعشاریہ چھے فی صد) آمدنی کے حامل ہیں اور ان کے مقابلے میں بیس فی صد غریب لوگ مجموعی آمدنی میں صرف سات فی صد حصہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں امیر اور غریب طبقات سے وابستہ لوگ ایک ہی ملک کے باشندے ہوتے ہوئے بھی الگ الگ دنیا میں رہتے ہیں اور یہ دنیائیں ایک دوسرے سے اتنی مختلف ہیں کہ ایک طبقے سے وابستہ افراد کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ دوسرے طبقے سے جڑے ہوئے لوگوں کے مسائل کیا ہیں۔ اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں متوسط طبقے کی تعداد مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ عوام کی غالب اکثریت کو کھانے کو روٹی اور علاج کے لیے دوا بھی میسر نہ ہو اور افراد کی ایک قلیل تعداد ہر طرح کی سہولتوں اور آسائشوں کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہو تو مسلسل احساسِ محرومی کسی ایسی صورتحال کو جنم دے دیتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی۔ اشرافیہ بلا ٹیکس مراعات، فوائد، محل نما رہائش گاہوں، مفت سہولت، ملازمین کی فوج ظفر موج سے لطف اندوز ہوتی ہے اور اہم علاقوں میں مہنگے پلاٹ بھی مفت یا رعایتی نرخوں پر حاصل کرتی ہے۔ آزادی کے بعد سے ریاستی نظام جو اپنا کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے، کو جمہوری بنانے کی غرض سے ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔آئی ایم ایف اور دیگر کے سامنے ہماری معاشی محکومی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ حکمراں اشرافیہ کی مسلسل ناکامی کے باعث ہم سیاسی استحکام اور پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے قرضوں اور مالیاتی خسارے کے دوہرے خطرات ہماری مسلسل مالی بدانتظامی کی گواہی دیتے ہیں۔ تو حضور یہ ہے وہ وجہ جس کی بنا پر یہاں غربت ناچ رہی ہے۔