اہل کراچی کی مشکلات، حکومت سندھ کی بے حسی

500

1987 کے بلدیاتی انتخاب میں جب کراچی سے ایم کیو ایم کامیاب ہوئی تھی، اور ان کا میئر آنا یقینی تھا، اس وقت کراچی میں کہیں کہیں سیوریج کی لائنیں چوک ہو گئی تھیں لیکن ایسی صورتحال نہیں تھی جیسی کہ آج ہے، لوگوں کو یاد ہوگا کہ ان دنوں میں الطاف حسین نے ایک انوکھا، اچھوتا بلکہ یوں کہیں کہ ایک اوچھا الزام لگایا کہ جماعت اسلامی کے کارکنان گٹروں میں بوریاں ڈال کر سیوریج کی لائنیں بند کررہے ہیں تاکہ ہمیں بدنام کیا جائے، خیر شہر کے سنجیدہ لوگوں نے اس بات کا کوئی اثر نہیں لیا تھا، لیکن آج کراچی شہر کی سیوریج کی جو تشویشناک کیفیت ہے اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے آپ شہر کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں چاہے وہ مہنگے اور پوش علاقے ہوں یا درمیانی درجے کی آبادیاں ہوں یا کچی آبادیاں ہوں ہر جگہ کہیں نہ کہیں آپ کو سیوریج کے گندے پانی سے واسطہ پڑے گا، شہر کی یہ صورتحال دو چار ماہ یا دوچار برس کی نہیں ہے بلکہ یہ پچھلے پندرہ بیس سال سے ہے یعنی جب نعمت اللہ خان ناظم سٹی تھے تو اس وقت اس مسئلے پر بہت زیادہ کام ہوا تھا اور یہ شکایات بہت حد تک کم یا نہ ہونے کے برابر تھیں ان کے جانے کے بعد جب بیوروکریسی نے بلدیاتی نظام سنبھالا تو انہوں نے سیوریج کے نظام کا بیڑہ غرق کردیا مصطفی کمال کے دور میں بھی اس پر کچھ کام ہوا لیکن ان کے بعد سے سیوریج کا سسٹم کراچی میں تباہ ہوتا چلا گیا حالانکہ وسیم اختر میئر رہے لیکن وہ اپنی پوری مدت اختیار اور فنڈز کی کمی کا رونا روتے رہے دوسری طرف کراچی میں پچھلے تیس چالیس سال سے اتنی تیزی سے تعمیرات ہوئی ہیں کہ اس نے سار انفرا اسٹرکچر تباہ کرکے رکھ دیا۔
کراچی کی آبادی کا پھیلائو زمین کے چاروں طرف بھی ہے اور آسمان کی طرف بھی ہے، آپ سپر ہائی وے پر چلے جائیں آپ کو بہت دور تک فلیٹس بنے ہوئے نظر آئیں گے ایک زمانے میں جب سپر ہائی وے کا آغاز ہوا تھا تو سہراب گوٹھ کے بعد جامشورو سے پہلے تک پہاڑ اور میدان ہی نظر آتے تھے اب تو ایسا لگتا ہے کہ آئندہ پچیس تیس سال بعد کراچی اور حیدرآباد مل جائیں گے اسی طرح نیشنل ہائی وے پر بہت ساری سوسائٹیاں بن گئیں ہیں ادھر بھی بس میں بیٹھیں تو بہت دور اور بہت دیر تک آپ کو آبادیاں نظر آئیں گی، حیدرآباد آنے سے پہلے دھابیجی اور گھارو کے اسٹاپ پڑتے تھے جن کی آبادیاں پہلے ہزاروں میں تھیں اب وہ بھی لاکھوں میں تبدیل ہو گئیں ہیں تیسری طرف بلوچستان کے راستے پر جائیں بلدیہ شیرشاہ تک آبادی ختم ہوجاتی تھی آگے کچھ گائوں گوٹھ ہوتے تھے، اب یہاں پر بھی بے حسا ب سوسائٹیاں بن گئیں ہیں جس نے کراچی کو حب سے یعنی بلوچستان سے ملا دیا ہے چوتھی طرف تو سمندر ہے اس کو بھی ہم پیچھے کی طرف دھکیل رہے ہیں اور ڈیفنس کے آٹھ دس فیزز تو ہو گئے ہیں جہاں ملک کا سرمایہ دار طبقہ رہائش اختیار کررہا ہے۔ سمندر کو اگر زیادہ پیچھے کی طرف دھکیلتے رہے تو کسی وقت یہ بپھر بھی سکتا ہے۔ ابھی ہم نے ملک ریاض کے بحریہ ٹائون کی تو بات ہی نہیں کی انہوں نے تو خیر سپر ہائی وے کے راستے پر وسیع و عریض علاقہ حاصل کیا ہے وہاں پر وہ اپنی طرز کا ایک منفرد رہائشی یونٹس بنارہے ہیں وہ دنیا کی چوتھی بڑی مسجد بھی وہیں بنارہے ہیں۔
اب آجائیے آسمان کی طرف پچھلے تیس چالیس برسوں میں کراچی کے جس ادارے کے کلرک اور چپراسی تک چند برسوں میں کروڑپتی بن گئے وہ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے اب اس کا نام سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے۔ اس ادارے کا کام علاقے کی انفرا اسٹرکچر کی صورتحال دیکھ کر بلڈنگوں اور منزلوں کی اجازت دینا ہوتا ہے یعنی اس جگہ کتنی منزلوں کی بلڈنگ بن سکتی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ گلشن اقبال، گلستان جوہر، اسکیم 33 اور شہر دیگر علاقوں میں ایس بی سی اے نے بیس بیس اور پچیس پچیس منزلہ عمارتیں بنانے کی اجازت دے دی یہاں پر کسی قاعدے قانون کا اطلاق نہیں کیا گیا اور اب بھی تیزی سے تعمیرات ہورہی ہیں آپ گلستان جوہر چلے جائیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ جیسے آپ کسی کنوئیں کے اندر گھوم رہے ہیں آپ سر اٹھا کر بلڈنگوں کو دیکھنے کی کوشش کریں گے تو چکرا جائیں گے ہمارے ان اداروں نے جو ان تعمیرات کے اجازت ناموں کا اختیار رکھتے ہیں پینے کا پانی اور سیوریج لائنوں کی ضرورتوں کا حساب لگائے بغیر اجازت نامے جاری کردیے اور اس بات کا ذرا خیال نہیں رکھا کہ جو لوگ ان عمارتوں میں رہائش اختیار کریں گے انہیں بعد میں کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کراچی میں کافی عرصے سے پینے کے پانی کی قلت سے شہری پہلے ہی پریشان تھے دوسری مصیبت گندے پانی کا گلیوں اور سڑکوں پر ہر وقت بھرا رہنا جس سے پیدل چلنے والوں کو تو تکلیف ہوتی ہے اس سے مختلف بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے کراچی میں یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی اس کی وجوہات پر غور کریں تو ہمیں حکومت سندھ کی تساہلی اور سستی نہیں بلکہ اس میں ان کی مجرمانہ غفلت نظر آتی ہے سب سے پہلی بات تو یہ کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو بلدیہ کراچی سے نکال کر صوبہ سندھ کی ماتحتی میں دے دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیوریج کا اسٹاف بالخصوص کنڈی مین پر سے عوامی کنٹرول ختم ہوگیا وہ اپنے آپ کو سندھ کا سرکاری ملازم سمجھنے لگے اب وہ عوام کا کام کرنے کے بجائے خواص کے کام کرنے لگے کہ ان کے افسران کے پاس کسی بڑے کا فون آتا یا ان سے اوپر کے افسران کسی جگہ کا گٹر کھولنے کے لیے کہتے تو وہ ان کا کام کرنے پر آمادہ ہوجاتے عوام کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ دوسرا ظلم پچھلے دور میں یہ ہوا کہ سوئیپرز اور کنڈی مینوں کی خالی آسامیوں پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنوں کو ملازمتیں دلائیں اور ان کی دفاتر میں کلرک کے طور پر پوسٹنگ کے نتیجے یہ ہوا کہ بلدیہ میں کراچی کی ضرورت کے مطابق جتنے کنڈی مین اور سوئیپر ہونے چاہیے اتنے نہیں ہیں جو ہیں وہ زیادہ تر بوڑھے اور بیمار ہیں جو نوجوان کنڈی مین ہیں وہ دفتر میں حاضری لگا کر پرائیویٹ کام کرنے چلے جاتے ہیں۔
بلدیاتی اداروں کی اس تشویشناک کیفیت میں 15جنوری کے بلدیاتی انتخاب میں کراچی کے شہریوں نے جماعت اسلامی پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے لیکن ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہمار الیکشن کمیشن سندھ خواب آور گولیاں کھاکر بیہوش پڑا ہے دوسری طرف حکومت سندھ بھی حسب توفیق تساہلی سے کام لے رہی ہے وہ متنازع نشستوں پر ہونے والے فیصلوں پر اپنے تاخیری ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے اسی طرح 11نشستوں پر دوبارہ انتخاب کے سلسلے میں حکومت سندھ الیکشن کمیشن کو دبائو میں لیے ہوئے ہے اور الیکشن کمیشن متنازع نشستوں پر فیصلہ اور گیارہ سیٹوں پر انتخاب کرانے کے حوالے سے لا پروائی سے کام لے رہا ہے اس درمیان میں بیوروکریسی اپنی من مانی کررہی ہے اور وہ یوسیز کے اندر جو بلدیاتی فنڈز ہیں انہیں جلد ازجلد ٹھکانے لگانے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ ادھر عوام نومنتخب یوسی چیرمینوں اور کونسلروں کے گھروں پر چکر لگارہے ہیں کہ ان کے گھروں میں گندا پانی داخل ہوگیا اس کا فوری تدارک کیا جائے ہم الطاف حسین کی طرح یہ تو نہیں کہیں گے پیپلز پارٹی گلی گلی سیوریج کا پانی پھیلا کر کراچی کے شہریوں سے وہ بلدیاتی الیکشن کا انتقام لے رہی ہے بلکہ اتنا ضرور کہیں گے کہ صوبہ سندھ میں دوسرے مرحلے انتخابی عمل کو مکمل کرنے کے حوالے شدید غفلت کا شکار ہے۔ ابھی حال ہی میں الیکشن کمیشن نے پنجاب اور کے پی کے میںضمنی صوبائی انتخاب کے مسئلے صدر مملکت کے خط کے جواب میں کہا ہے صدر صاحب کو الفاظ کے چنائو میں احتیاط سے کام لینا چاہیے الیکشن کمیشن نے بے حسی کے لفظ پر اعتراض کیا ہے۔ کراچی میں گیارہ بلدیاتی انتخاب کے بعد مخصوص نشستوں کے انتخاب اور ٹائون کے انتخابات، اور پھر میئر کے انتخابات کے سلسلے الیکشن کمیشن سندھ کی پراسرار خاموشی کو کیا نام دیا جائے، یہ بے حسی نہیں تو اور کیا ہے کہ کراچی شہری سیوریج کے تالاب میں، حکومت سندھ بے حمیتی کے دریا میں اور الیکشن کمیشن بے حسی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کراچی کے شہریوں کو جماعت اسلامی لاوارث نہیں چھوڑ سکتی اگر سندھ حکومت نے جلد کوئی کارروائی نہیں کی تو مہنگائی سے متاثر اور بلدیاتی سہولتوں سے محروم عوام کے غیظ و غضب کے سامنے پیپلز پارٹی ٹھیر نہیں سکے گی۔