دگرگوں حالات اور بلدیاتی نمائندے

476

بظاہر تو ہم فوجی آمروں کو بہت برُا بھلا کہتے ہیں مگر حق اور انصاف کی بات یہ ہے کہ نچلی سطح پر اختیارات ان ادوار میں تفویض کیے جاتے ہیں، جمہوری ادوار میں نہیں، صدر ایوب خان کا دور تھا تو بی ڈی ممبرز کے ذریعے بنیادی جمہوریت کو متعارف کردیا گیا۔ شہر کراچی اور ملک بھر میں جس قدر ترقیاتی کام ہوئے ان کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے مگر صرف لانڈھی کورنگی کی حد تک سڑکوں اور برساتی نالوں کا وہ جال پھیلایا گیا جو آج شہری ضرورت پورا کرنے کے لیے ناکافی ضرور ہیں مگر آج سے 60 سال قبل ان برساتی نالوں کی وجہ سے بارش کے دوران آبادیاں محفوظ رہتی تھیں اور انہیں کے پھیلائے گئے سڑکوں کا نظام کس قدر متوازی ہے کہ اگر ایک دو سڑکیں بند بھی ہوں تو بھی لوگ اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر صدر ضیا الحق کے عہد 1979ء میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات ہوئے تو کراچی کا رنگ و روپ ہی بدلنے لگا، سیورج لائنوں کا جال بچھایا گیا، سڑکوں کی تعمیر ہوئی کھیلوں کے میدان اور پرائمری اسکولوں کے علاوہ بلدیہ کے زیر اہتمام اسپتالوں کی تعمیر کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کے آثار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں پھر اکیسویں صدی کے اوائل میں صدر پرویز مشرف نے ایک نیا بلدیاتی نظام نافذ کیا جس نے کراچی کی قسمت کو بدل کر رکھ دیا۔ سڑکوں، پلوں، انڈر پاسز، اوور ہیڈ بیرجز، پارکوں، اسکولوں، کالج اور اسپتالوں کی عمارتیں تعمیر ہوئیں اور پرانی عمارتوں کی تزئین و آرائش کی گئی، مرحوم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے تعمیر و ترقی کا وہ سفر شروع کیا جس کی یادیں آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔ 2009ء میں بلدیاتی نظام رخنہ انداز ہوا اور پھر بڑی جدوجہد کے بعد 2015ء میں بلدیاتی انتخابات ہوئے مگر اس مرتبہ منتخب ہونے والے میئر سے لے کر چیئرمین تک کسی نے بھی عوامی مسائل پر توجہ نہ دی اور یہ پورا چار سالہ دور اسی بازگشت میں گزر گیا کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں۔ بارشیں ہوئیں شہر ڈوبا لوگ پریشان ہوئے میئر کا خاندان ملک سے باہر عشرت کدوں میں زندگی گزارتا رہا۔ میئر اور ان کے چیئرمین وائس چیئرمین کو تنخواہیں اور مراعات حاصل ہوئیں اور پھر خدا خدا کرکے یہ دور ختم ہوا۔
دو سال سے زائد عرصے تک حکومت سندھ رغنہ اندازیاں ڈالتی رہی، یوں کراچی اور حیدر آباد کے انتخابات التوا کا شکار رہے۔ عدالتوں کی مداخلت اور شدید عوامی احتجاج کے بعد بالآخر 15 جنوری کو کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے، سخت سردی کے باوجود لوگ گھروں سے نکلے تا کہ شہر کراچی کی روشنیوں کو واپس لانے کے لیے اپنا حصہ ادا کرسکیں۔ مگر سندھ کی حکومت نے نتائج میں ریٹرننگ آفیسرز کے ذریعے وہ ہیر پھیر کیا جس سے انتخابات کی شفافیت متاثر ہو کر رہ گئی۔ امیدواروں سے کہا گیا کہ ان کے پولنگ ایجنٹ فارم 11 اور 12 ضرور حاصل کریں مگر جب ریٹرننگ آفیسرز سے نتائج حاصل کیے تو وہ فارم 11 سے مطابقت نہ رکھتے تھے۔ الیکشن کمیشن کے پاس گئے مگر تاحال معاملے کو طول دیا جارہا ہے۔ حالاں کہ بات بالکل سیدھی ہے جب کسی امیدوار کے پاس پریذائیڈنگ آفیسرز کے دیے گئے فارم 11 موجود ہیں تو پھر اوپری سطح پر نتائج میں تبدیلی کھلی دھاندلی نہیں تو کیا ہے؟ الیکشن کمیشن بھی سیدھے سادے معاملے کو حل کرنے کے بجائے تاریخیں دے رہا ہے اور سابقہ تجربات کی روشنی میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ معاملات عدالت میں جائیں گے جہاں سے پورا دور گزرنے کے بعد بھی انصاف کا حصول ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
خدا خدا کرکے انتخابات ہوئے لوگوں نے ووٹ ڈالے اور جہاں کے نتائج درست ہیں وہاں کے عوام نے اپنے نمائندوں سے یہ توقع لگائی کہ بنیادی نوعیت کے مسائل مثلاً پانی، صفائی اور سیوریج لائنوں کی بندش وغیرہ حل ہونے لگیں گے۔ اور خود میرا بھائی خورشید اقبال جو UC-7 کورنگی ٹائون سے چیئرمین منتخب ہوا ہے کہ پاس اگلے ہی روز سے اہل محلہ اپنے مسائل لے کر آنے لگے اور یہ وہ مسائل ہیں جنہیں حل کرنا یونین کونسل کا بنیادی فریضہ ہے۔ جب میرے بھائی دیگر منتخب اراکین کے ہمراہ یونین کونسل کے دفتر پہنچے تو پتا چلا کہ سیکرٹری محمد علی صاحب دن 2 بجے آتے ہیں اور 4 بجے چلے جاتے ہیں۔ طویل انتظار کے بعد ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو موصوف نے کہا کہ میں بہت دور یعنی عثمان آباد سے آتا ہوں اس لیے 2 بجے سے پہلے نہیں پہنچ سکتا اور اندازہ ہوا کہ وہ موصوف محض میریج، برتھ اینڈ ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط کرنے اور ان سے حاصل ہونے والی اوپر کی آمدنی وصول کرنے آتے ہیں۔ جس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ میریج، ڈیتھ اور برتھ سرٹیفکیٹ پر بمشکل 50 روپے کا خرچہ آتا ہے جبکہ عوام الناس سے 500 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ یوں ایک بڑی رقم سیکرٹری صاحب کے پاس چلی جاتی ہے۔ ملاقات کے دوران سیکرٹری یہی کہتے رہے کہ ابھی تو آپ کا حلف نہیں ہوا جب حلف ہوجائے تو آئیے گا اور میں آپ کو آمدنی کے ذرائع بھی بتائوں گا جس میں میرا حصہ بھی رکھنا ہوگا۔ میرے بھائی نے کہا میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہے نہ کبھی حرام کھایا ہے اور نہ کھانے کا ارادہ ہے اور آپ بھی اس سے دور ہی رہیں تو وہ حیران ہو کر بھائی کو دیکھنے لگا جب دفتری عملے کی بابت معلومات چاہی تو پتا چلا کہ 7 افراد ہیں مگر محض 2 موجود ہیں دیگر افراد بھی جب جی چاہتا ہے چلے آتے ہیں۔
جب یوسی آفس میں عدم تعاون دیکھا تو ٹائون کورنگی کی عمارت کورنگی 4 جا پہنچے جہاں ایکسین آصف صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنے مسائل اور عوامی توقعات کی بابت توجہ دلائی تو ان کا بھی وہی جواب کہ جب حلف اُٹھالیں تو آئیے گا ابھی چونکہ کورنگی لانڈھی میں یونین کونسلوں کی حدود ازسرنو ترتیب پائی ہیں اس لیے میں وہاں کے عملے کی بابت کام کررہا ہوں، جب ہم نے ان کی توجہ روزمرہ امور سیوریج لائنوں اور صفائی کی طرف دلوائی تو انہوں نے دوکنڈی مین کے نام بتائے۔ اگلے روز ان کنڈی مینوں سے ملاقات کی اور سیوریج لائنیں کھولنے کی ہدایت کی، وہ جہاں بھی گئے سیوریج لائن کھولنے کے لیے رقم کا مطالبہ کرتے رہے جب ان سے اس بابت باز پرس چاہی تو کہنے لگے تنخواہ تو دفتر آنے کی ملتی ہے کام کرنے کے پیسے الگ ہوتے ہیں۔
میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اس کرپٹ اور تباہ حال بلدیاتی نظام کی اصلاح کیسے ہوگی جب عملہ اپنی ڈیوٹی پر آنے کو تیار نہیں ہر ایک اوپر کی آمدنی کے لیے منہ کھولے کھڑا ہے تو حافظ نعیم الرحمن اور ان کے ساتھی کیا کرپائیں گے۔ حلال اور حرام کی تمیز ختم ہوچکی، رشوت اور ناجائز آمدنی کو عملہ اپنا حق سمجھتا ہے، ان حالات میں دُعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے۔ آمین۔