متناسب نمائندگی ہی سے حقیقی تبدیلی ممکن ہے

538

اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے بڑے، انتہائی گمبھیر اور خطرناک معاشی، سیاسی اور اخلاقی بحران سے گزر رہا ہے۔ معاشی تباہ حالی اپنی بدترین شکل میں موجود ہے۔ جبکہ ملک غیریقینی سیاسی دلدل میں تیزی سے پھنستا جارہا ہے۔ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے سودی معیشت، شاہانہ اخراجات، اشرافیہ کو ملنے والی اربوں روپے کی ناجائز مراعات، انتظامی مصارف میں پے درپے اضافہ، کرپشن کے منحوس دائروں کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح سیاسی بحران کے خاتمہ کے لیے مختلف دیگر تجاویز کے ساتھ متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنانا انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ طریق انتخاب سنگل رکن حلقہ جاتی نظام ہے۔ سنگل رکن حلقہ جاتی نظام میں جیتنے والا بسا اوقات 30فی صد ووٹ لیکر کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ 70فی صد ووٹروں کی نمائندگی اسمبلی میں نہیں پہنچتی۔ ان کے ووٹ ضائع ہوجانے کے خدشہ کی وجہ سے ووٹروں کی انتخاب میں دلچسپی نہیں رہتی اس لیے شرح ووٹنگ بہت کم رہتی ہے۔ پارٹیاں بھی الیک ٹیبلز یعنی جیتنے والے گھوڑوں بلکہ گدھوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ اس لیے پارلیمنٹ میں نمائندگی کا معیار بہت پست ہوتا ہے۔ پارٹی منشور کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ حلقہ کا فرد ہی اصل اہمیت رکھتا ہے۔ ووٹر یا پارٹی اس کے کردار، مثلاً قبضہ گروپ، منشیات فروش، رسہ گیر وغیرہ کی طرف نہیں دیکھتے۔ اس طریق انتخاب میں لوکل یا انجینئرڈ دھاندلی کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ برادری ازم اور مقابلے کی فضا کی وجہ سے لڑائی جھگڑے بلکہ قتل و غارت تک نوبت پہنچتی ہے۔ جعلی ووٹنگ عروج پر ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں کہ ہر حلقہ کے لیے بیلٹ پیپرز کے رنگ الگ ہوتے ہیں۔ ان ہی خرابیوں کی وجہ سے متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنایا گیا، اس سلسلہ کا پہلا تجربہ 1856 میں ڈنمارک میں ہوا۔ 1871 میں جرمنی نے بھی اس طرف پیش قدمی کی۔ اس وقت دنیا کے 80 ممالک میں یہ نظام رائج ہے۔ اس طرح کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوتا۔ ہر پارٹی اور ہر نقطہ ٔ نظر کی نمائندگی اسمبلی تک پہنچتی ہے۔ ووٹر کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ اجارہ داریوں اور موروثی سیاست کا خاتمہ ہوتا ہے۔ دھن دھونس، دھاندلی کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ پارٹیاں بہتر امیدوار دیتی ہیں۔ اسمبلیوں میں ماہرین قانون و معیشت، نامور علمائے کرام کو بھی نمائندگی مل جاتی ہے۔ الیکشن کے اخراجات کم ہوتے ہیں۔ قوم کا سرمایہ اور وقت بھی بچتا ہے۔
متناسب نمائندگی پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ نئی نئی پارٹیاں بنتی ہیں اور علاقائی، لسانی اور برادریوں کی سیاست کو عروج ملتا ہے۔ وفاقیت کمزور ہوتی ہے اور ناپائیدار مخلوط حکومتیں وجود میں آتی ہیں اور اس کے لیے دستور میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ اعتراضات زیادہ تر لاعلمی پر مبنی ہیں۔ متناسب نمائندگی سے سیاسی ادارہ سازی وجود میں آتی ہے۔ صاف ستھری سیاست اور نظریاتی اساس مضبوط ہوتی ہے۔ ایک دو انتخابات کے بعد فرقہ پرستی، برادری، لسانی بنیادوں پر بننے والی پارٹیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کے 1970 کے انتخابات سے دونوں نظاموںکو زیادہ بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 61لاکھ 48ہزار ووٹ لیے، یہ ملک بھر کے ووٹوں کا 18فی صد اور مغربی پاکستان کے ووٹوں کا 38فی صد تھا۔ انہیں 81سیٹیں ملیں۔ اگر متناسب نمائندگی کا نظام ہوتا تو انہیں 56سیٹیں ملتیں۔ عوامی لیگ نے ایک کروڑ 29لاکھ ووٹ لیے جو ملک بھر کے ووٹوں کا 38فی صد اور مشرقی پاکستان کے ووٹوں کا 75فی صد تھا۔ اسے 160سیٹیں ملیں۔ متناسب نمائندگی کی صورت میں 100سے بھی کم سیٹیں ہوتیں۔ جماعت اسلامی کو 19لاکھ 90ہزار ووٹ ملے اور سیٹیں چار ملیں۔ متناسب نمائندگی کی صورت میں سیٹوں کی تعداد 16ہوتی۔ دنیا بھر میں پورا ملک حلقہ، صوبہ حلقہ، ضلع حلقہ کے طریقے رائج ہیں۔ اسی طرح پارٹی لسٹ سسٹم، مکسڈ ممبر سسٹم وغیرہ کے نظام چل رہے ہیں۔
1970 کے الیکشن کے منشور کے لحاظ سے پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے منشور میں اس طریق انتخاب کی تائید کی گئی تھی۔ اب جماعت اسلامی، پاکستان عوامی تحریک وغیرہ حامی ہیں۔ تاہم جاگیر دارانہ طرز سیاست کے خاتمہ کے لیے پہلے مرحلے میں 50فی صد حلقہ جاتی 50فی صد متناسب نمائندگی یا پارٹی ووٹ، حلقہ کے ووٹ کا ووٹ کے امتزاج کا طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔