عدلیہ کا وقار خاک میں نہ ملائیں!

360

پنجاب اور صوبہ خیبر کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ہوئے چھ ہفتے گزر رہے ہیں آئینی تقاضا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کئے جانے کے نوے دن کے اندر انتخابات کروا دیئے جائیں، یوں اب تک تقریباً نصف مدت گزر چکی ہے مگر ابھی تک دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی کوئی حتمی تاریخ سامنے نہیں آ سکی، وفاقی حکومت اور صوبوں میں اس کے نمائندہ گورنر اس ضمن میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں، عدالت عالیہ لاہور نے الیکشن کمیشن کو مقررہ تاریخ کے اندر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کروانے کا حکم جاری کیا مگر اس حکم پر عمل کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن اور گورنر نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کر دی جو زیر التوا ہے، اسی طرح کی صورت حال صوبہ خیبر میں بھی در پیش ہے اور وہاں بھی عدالت عالیہ ہی میں معاملہ زیر التوا ہے، اسی دوران صدر مملکت نے اپنی آئینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو مشاورت کے لیے تین خطوط لکھے مگر الیکشن کمیشن نے پہلے تو خط کا جواب ہی نہیں دیا اور پھر واضح طور پر صدر مملکت سے اس ضمن میں مشاورت سے انکار کر دیا جس پر صدر مملکت نے خود نوے دن کے آئینی تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نو اپریل 2023ء کو کرانے کے لیے تاریخ کا اعلان کر دیا۔ اسی دوران عدالت عظمیٰ کے ایک دو رکنی بنچ نے منصف اعلیٰ کو انتخابات کے معاملہ میں از خود نوٹس لینے کی تجویز پیش کر دی جب کہ قبل ازیں دونوں صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر حضرات کی درخواستیں بھی عدالت عظمیٰ کے منصف اعلیٰ کے پاس پہنچ چکی تھیں۔ ان حالات کے پیش نظر منصف اعلیٰ نے معاملہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے، عدالت عظمیٰ کا ایک نو رکنی بنچ تشکیل دے دیا تاکہ آئین میں مقرر شدہ نوے دن کی مدت کے اندر دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو یقینی بنایا جا سکے اور آئین کی خلاف ورزی کا راستہ روکا جا سکے مگر سوئے قسمت کہ اس بنچ کے آغاز کار ہی میں بینچ کو متنازعہ بنانے اور معاملہ کو غت ربود کرنے کی کوششیں سامنے آ گئیں ۔ جمعرات کے روز جب از خود نوٹس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو منصف اعلیٰ عمر عطا بندیال نے وضاحت کی کہ آئین کی دفعہ 224 کے مطابق انتخابات کا انعقاد نوے روز میں لازمی ہے، عدالت کسی طور پر بھی آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، وقت تیزی سے گزر رہا ہے، جب کہ دوسری جانب چونکہ عدالت ہائے عالیہ میں یہ معاملہ زیر التوا تھا اور اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ سماعت کی ابتداء ہی میں جسٹس جمال خاں مندوخیل نے منصف اعلیٰ کی جانب سے از خود نوٹس لیے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے رائے دی کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ آئین میں اسمبلیوں کی مدت پانچ برس درج ہے اور لوگوں نے گزشتہ عام انتخابات میں اپنے نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجا تھا، عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ آیا وزیر اعلیٰ نے اسمبلی آئین میں رہتے ہوئے تحلیل کی یا کسی سیاسی شخصیت کے کہنے پر توڑی، ممکن ہے عدالت ریکارڈ کے جائزہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اسمبلی غلط توڑی گئی اور اسمبلی کی بحالی کے فیصلے سے یہ بحران خود ہی ختم ہو جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے بھی سوال اٹھایا کہ کیا وزیر اعلیٰ کسی رہنما کے کہنے پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے ؟ پہلے روز کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اور تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بھی بعض نکات عدالت کے سامنے پیش کئے تاہم منصف اعلیٰ نے واضح کیا کہ وقت بہت کم ہے اور عدالت کو تین معاملات کو سننا ہے جب کہ بنچ کے رکن جج صاحبان کی طرف سے اٹھائے گئے سوال بھی عدالتی حکم میں شامل کئے جائیں گے۔ جمعرات کو عدالت عظمیٰ کی طرف سے صدر مملکت، دونوں گورنروں، حکمران اتحاد پی ڈی ایم کی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر کے کارروائی اگلے روز تک ملتوی کر دی گئی…!
دوسری جانب عدالت سے باہر وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے بعض ارکان نے از خود نوٹس بینچ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جب کہ نواز لیگ کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے جلسہ عام میں نام لے لے کر ججوں کو ہدف تنقید بنایا وہ ہر طرح کی الزام تراشی کھلم کھلا کسی لگی لپٹی کے بغیر کرتی رہیں، حکمران نواز لیگ کا تو خیر یہ پرانا طرز عمل ہے کہ وہ عدلیہ اور دوسرے اداروں کو دبائو میں لانے کے لیے ہدف تنقید بناتی رہی ہے۔ 2017ء میں وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد میاں نواز شریف اور مریم نواز پانچ ججوں پر شدید تنقید کرتے رہے۔ قبل ازیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر حملہ آور ہونے کا منفرد اعزاز بھی نواز لیگ ہی کو حاصل ہے حالانکہ خود وزیر اعظم شہباز شریف کی اس وقت کے جسٹس ملک محمد قیوم سے گفتگو کی ٹیپ پیپلز پارٹی کے رہنما مرحوم رحمن ملک منظر عام پر لائے تھے جس میں وہ ملک قیوم کو ہدایت کر رہے تھے کہ بے نظیر بھٹو کو سخت ترین سزا سنائی جائے، جواب میں جسٹس قیوم تعمیل حکم کی یقین دہانی کرا رہے تھے، اس ٹیپ کے انکشاف کے بعد ملک قیوم نے تو عدالت عالیہ سے استعفیٰ دے دیا مگر شہباز شریف آج تک ہر طرح کی جواب دہی سے محفوظ رہتے ہوئے ملک کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال چکے ہیں۔ اس طرح نواز لیگ کا عدالتوں کو ہدف تنقید بنانا اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا تو پرانی روایت ہے مگر اس دفعہ اس ضمن میں افسوس ناک پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے بنچ کے ارکان میں تقسیم بھی کھل کر سامنے آ رہی ہے جب کہ پاکستان بار کونسل نے بھی عدالت عظمیٰ کے بنچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ بار کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سینئر ترین ججوں جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کو بنچ میں شامل نہیں کیا گیا، اعلامیے میں جسٹس مظاہر علی نقوی سے رضا کارانہ طور پر بنچ سے الگ ہو جانے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ جسٹس نقوی کے خلاف ایک وکیل نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا ہے جب کہ پاکستان بار کونسل کی جانب سے بھی جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے… اس طرح ایک ناقابل فہم کھچڑی پک رہی ہے شور اتنا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ نواز لیگ تو پہلے ہی اس ضمن میں خاصی سرگرم رہی ہے، اب پیپلز پارٹی اور حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں بھی اسی راہ پر گامزن دکھائی دے رہی ہیں اور سب سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ خود اعلیٰ عدلیہ کی صفوں میں انتشار اور باہمی اختلاف ابھر کر سامنے آ رہا ہے جب کہ بار کے ارکان کی باہمی تقسیم اور گروہ بندی بھی نمایاں ہے۔ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کے تمام اہم اور آئینی ادارے اس وقت متنازع ہو چکے ہیں، عدلیہ بھی اگرچہ اس سے کبھی محفوظ نہیں رہی مگر جس طرح سر عام اس وقت اس معزز ادارے کی بھد اڑائی جا رہی ہے، ماضی میں اس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔ خدارا ہمارے سیاست دان، ماہرین آئین و قانون اور اعلیٰ عدلیہ سے وابستہ جج صاحبان ذرا سنجیدگی اختیار کریں اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچیں کہ وہ ملک و قوم کو کس دلدل میں دھکیل رہے ہیں؟ ملک کی اعلیٰ عدلیہ اب تک عوام کی امیدوں کا مرکز رہی ہے خدارا، اس کی عزت اور وقار خاک میں نہ ملائیں۔ بقول شاعر…!
اک دسترس سے تیری حالیؔ بچا ہوا تھا
اس کے بھی دل کو تونے چرکا لگا کے چھوڑا