دولت مند حکمرانوں کا مفلس و مقروض ملک

722

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے ارکان کے ساتھ مشترکہ طور پر ذرائع ابلاغ کے سامنے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ کفایت شعاری کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام وفاقی وزراء، مشیر، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے اور گیس و بجلی سمیت دیگر بل اپنی جیب سے ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعطم نے بتایا کہ کابینہ میں ڈھائی گھنٹے کی بحث کے بعد ہم نے متعدد فیصلے کیے ہیں۔ کابینہ کے زیر استعمال تمام لگژری گاڑیاں واپس لی جارہی ہیں، وفاقی وزرا اندرون و بیرون ملک اکنامی کلاس میں سفر کریں گے، بیرون ملک دوروں کے دوران کابینہ ارکان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام نہیںکریں گے، تمام وزارتوں، ذیلی ماتحت دفاتر، ڈویژن اور متعلقہ محکموںکے جاری اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے گی۔ جون 2024ء تک تمام لگژری اشیاء کی خریداری پر مکمل پابندی ہو گی۔ ہر طرح کی نئی گاڑیوںکی خریداری پر مکمل پابندی عاید ہو گی، وزیراعظم نے کہا کہ سرکاری افسران کو ناگزیر بیرونی ممالک کے دوروں کی اجازت ہو گی جو کہ اکنامی کلاس میں سفرکریں گے، معاون عملہ ساتھ نہیں جائے گا نہ ہی فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کریں گے۔ کابینہ کاکوئی رکن، عوامی نمائندہ یا سرکاری افسر لگژری گاڑی استعمال نہیں کرے گا۔ زوم میٹنگ اور کانفرنس کو ترجیح دی جائے گی تا کہ سفری اخراجات سے بچا جائیں، وفاقی حکومت میں کوئی نیا شعبہ تشکیل نہیں دیا جائے گا، اور نہ آئندہ 2 سال تک کوئی انتظامی یونٹ، ڈویژن، ضلع، سب ڈویژن یا تحصیل کی سطح پر بنایا جائے گا۔ شہباز شریف نے کہا کہ اس بات پر فوری عمل کیا گیا ہے کہ سرکاری افسر یا حکومتی عہدیدار کو ایک سے زاید سرکاری پلاٹ نہیں دیا جائے گا، پولیس اور دیگر سرکاری افسران سے وہ سرکاری گھر خالی کرائے جائیں گے جو انگریز کے زمانے میں بنے اور بڑے شاہانہ گھروں میں مقیم ہیں اور اس سلسلے میں وزیرقانون کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی بنائی گئی ہے جو کابینہ کو تجاویز مرتب کر کے دے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کفایت شعاری کے اقدامات کا اعلان آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے معاہدے کے نتیجے میں آنے والے مہنگائی کے طوفان کے پیش نظر گزشتہ ہفتے کیا تھا۔ وفاقی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے 170ارب روپے کے اضافی ٹیکس حاصل کرنے کے لیے ضمنی بجٹ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرا چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے احکامات اور پالیسی پر عمل کرنے کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر انتہائی کم ہو چکی ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران میں مبتلا ہو چکا ہے۔ قرضوںکی معیشت نے ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے، ڈالر کی قلت کی وجہ سے درآمدات، برآمدات، صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں مفلوج ہو چکی ہیں۔ قوم کی اکثریت غربت و افلاس کے بدترین درجے تک گر گئی ہے۔ اقتصادی بحران نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آزادی کے بعد کے 75 برسوں میں نظام ریاست و حکومت اور مقتدر اشرافیہ نے ملک کو برباد کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ درآمدات کے لیے زرمبادلہ موجود نہیں ہے۔ اس کے ساتھ آئی ایم ایف کی مزید شرائط بھی موجود ہیں۔ بجلی، گیس، پیٹرول کی قیمتوںمیں مزید اضافے کے احکامات ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہ ساری اکام محض ایک ارب 170 کروڑ ڈالر کی قسط کے حصول کے لیے کیا جارہا ہے، جبکہ سرکاری بینک میں صرف 3 ارب ڈالر رہ چکے ہیں جو چند ہفتوں کے لیے کافی ہیں۔ وزیراعظم نے اس بات کی اطلاع دیتے ہوئے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ چند دنوںمیں ہو جائے گا یہ ’’خوش خبری‘‘ بھی سنا دی ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ قوم کے لیے یہ کوئی خبر نہیں ہے بلکہ انھیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ اس تباہی و بربادی کا ذمے دار کون ہے۔ ان 75 برسوں میں قدرتی وسائل سے مالا مال ملک مفلس اور مقروض ہو گیا ہے۔ اسے قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑ رہا ہے، قرض کی ادائیگی کے لیے ظالمانہ، جابرانہ ٹیکسوں کا بوجھ بھی ملک کی غریب اکثریت پر ڈالا جارہا ہے جب کہ اس ملک کی مقتدر اشرافیہ جو سیاست دانوں، جرنیلوں، بیوروکریٹ، ججوں اور کارپوریٹ بیوروکریسی کے اور ان کے ایجنٹوں پر مشتمل ہے وہ ارب پتی ہو چکی ہے، اصل ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ لوگ جنہوں نے جائز، ناجائز، قانونی، غیر قانونی ہر طرح سے دولت کمائی ہے اور ان کے ملکی اور بیرونی ملکوں کے بینکوں میں اربوں ڈالر اور دیگر کرنسیوں میں کھاتے ہیں وہ اس ملک کو قرض سے نجات دلائیں ورنہ عوام کو معلوم ہو گیا ہے کہ انہیں کس نے لوٹا ہے۔ اس کا خوف مقتدر اشرافیہ میں پیدا ہو گیا ہے۔ خود شریف خاندان کے اثاثوں اور بنکوں میں کھاتوںکی تفصیلات سے شہری آگاہ ہیں۔ قوم انقلاب کے دہانے پر کھڑی ہے۔ کابینہ کی جانب سے کفایت شعاری اور تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا اعلان عوامی غضب سے بچنے کا طریقہ ہے، لیکن اب ایسے نمائشی اقدمات کام نہیں آئیں گے۔