سانحہ بارکھان

643

بلوچستان کے دور دراز علاقے بارکھان میں ایک کنویں سے ایک خاتون اور لڑکوں کی لاشوں کی برآمدگی یہ بتا رہی ہے کہ جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کے اندر جکڑے ہوئے عوام کی داد رسی کرنے میں ہمارا ریاستی نظام ناکام ہے۔ سانحہ بارکھان کا المیہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت کا وزیر اس روح فرسا واقعے کا ملزم ہے۔ کچھ عرصے قبل ایک بلوچ خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ قرآن ہاتھ میں لے کر فریاد کر رہی تھی کہ اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو ایک بااثر سردار نے نجی جیل میں قید کیا ہوا ہے، اس سے مظلوم خاتون کی فریاد ایوان حکومت و عدالت میںپہنچی تو مظلوم خاتون اور اس کے بیٹوں کی لاشیں ایک کنویں سے برآمد ہو گئیں۔ مظلوم خاتون کا شوہر طویل عرصے سے فریاد کر رہا تھا کہ اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو بااثر سردار نے نجی جیل میں قید رکھا ہوا ہے، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادار نجی جیل میں قید مظلوموں کی بازیابی میں ناکام ہو گئے۔ یہاں تک ملزم کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع مل گیا کہ اس کی کوئی نجی جیل نہیں ہے۔ بارکھان کے کنویں سے خاتون اور دو لڑکوںکی تشدد زدہ لاشیں ملنے کے بعد یہ واقعہ ذرائع ابلاغ میں آگیا ۔ مقتولوں کے وارثوں نے لاشیں دارالحکومت کوئٹہ میں لا کر دھرنا دے دیا ہے اور وزیراعظم کی آمد تک تدفین سے انکار کر دیا تین مقتولوں کی لاشوں کی برآمدگی کے باوجود بیٹے اور بیٹیاں نجی جیل میں قید ہیں۔ عوامی دبائو پر صوبائی وزیر کو گرفتار کر لیا گیا ہے، لیکن اس بات کی کوئی امید نہیں ہے کہ مظلوموں کو انصاف مل جائے گا اور ظالموں اور قاتلوں کو سزا دی جائے گی۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ ریاست جو ایک قبائلی سیاسی رہنما اکبر بگٹی کو سیاسی اختلاف کی بنیاد پر میزائل مار کر قتل کر دیتی ہے وہ ایک دوسرے قبائلی سردار کی نجی جیل سے مظلوموں کو بازیافت نہیں کرا سکتی۔ اس لیے کہ ایسے تمام جرائم پیشہ افراد ’’باپ‘‘ جیسی پارٹیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ کیا اسٹابلشمنٹ نے یہ پالیسی بنا رکھی ہے کہ صاحب الرائے، آزاد ذہن کے حامل جرأت مند سیاسی قیادت پر جرائم پیشہ ظالموں اور جابروں کو مسلط رکھیں گے۔