ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر (آخری حصہ)

463

وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ اس عالم خاکی میں صرف ایک ہی نظام چل سکتا ہے اور یہ وہی نظام ہے جو نبی آخر الزماںؐ لے کر آئے اور جس کا بھرپور اظہار خلفائے راشدین کے ادوار میں نظر آتا ہے۔ کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام اس دنیا کو فلاح و صلاح کی طرف نہیں لے جاسکتے، کامیابی کی کلید قرآن پاک کے متعین کردہ نظام میں مضمر ہے۔ اس لیے وہ یہ کہتے نظر آئے۔
لوٹ کر آجائے گی مخلوق کعبے کی طرف
وقت کے آزر کا بت خانہ سجا رہ جائے گا
ماند پڑ جائے گی ہر ملحد مفکر کی چمک
ضوفشاں عالم میں نام مصطفیؐ رہ جائے گا
ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر مایوس نہ تھے، وہ تمام تر ظاہری ناکامیوں کے باوجود بڑے پُراُمید تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خوش کن دور کے متمنی تھے، قوم کی تقدیر کو بدلنے اور اصلاح احوال کی خاطر وہ ہمہ وقت پیہم رواں زندگی گزارنے کے قائل تھے۔ اس لیے وہ اپنی نظموں میں اُمت مسلمہ کی ماضی کی لغزشوں پر کڑھتے نظر آئے تھے، کہیں اُمت کے حال کی ابتری کا نوحہ کرتے دکھائی دیتے اور کہیں ارباب اختیار کی بے بصری اور خود غرضی کو طشت ازبام کررہے ہوتے لیکن کہیں بھی وہ امت کے مستقبل سے مایوس اور اپنے فرض سے غافل دکھائی نہیں دیے۔
وادیٔ نیل میں بالخصوص، اخوان المسلمین کی تحریک نشاۃ اسلامی سے بندھنے والی اُمید پھر ان پر مصری حکومت کا جبر و استبداد ایک Termol ہے جس نے اس نظم میں ایک مواجی کیفیت پیدا کردی ہے مگر پھر اُمید کا ایک لنگر ہے جو قاری کو مایوسی کے اتھاہ سمندر میں بھٹک جانے اور ڈوبنے سے بچاتا ہے اور وہ کہہ اُٹھتا ہے:
پھر نیل کی وادی دیکھے گی
قارون کی دولت چھنتے ہوئے
پھر نیل کی موجیں دیکھیں گی
فرعون کا لشکر مٹتے ہوئے
پھر نیل کا پانی دیکھے گا
موسیٰؑ کو کنارے لگتے ہوئے
پھر نیل کی وادی یوسفؑ کو
دستار و عبا پہنائے گی
تہمت کی حقیقت جو کچھ ہے
اِک روز وہ سب کھل جائے گی
پھر خون شہیداں کی سرخی
تمہید سحر بن جائے گی
قدرت کا اَٹل قانون ہے یہ
کچھ فکر و نظر کا پھیر نہیں
اسباب و علل کی دُنیا میں
کچھ دیر تو ہے اندھیر نہیں
میرے والد بزرگوار ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر جماعت اسلامی ضلع بن قاسم کے نائب امیر کی حیثیت سے ذمے داریاں انجام دیتے رہے۔ 1989ء کل پاکستان کے اجتماع عام مینارِ پاکستان میں نہ صرف خود شریک ہوئے بلکہ ضلع بن قاسم کے کارکنان میں وہ ولولہ و جوش پیدا کیا کہ ایک وقت وہ آیا کہ نشستیں کم اور خواہشمند زیادہ تھے۔ ٹرینوں کی بکنگ کی تمام ذمے داری والد صاحب پر تھی، جسے انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ 1995ء کے اجتماع عام میں ناسازی طبع کے باوجود شرکت پر مصر رہے اور ہوائی جہاز کے ذریعے لاہور گئے۔ تحریک اسلامی سے ان کی یہ وابستگی دیکھ کر رشک آتا تھا۔
وہ ایک شفیق اور محبت کرنے والے باپ تھے، انہوں نے ہماری تربیت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ حرام و حلال کے حوالے سے انہوں نے ہم میں شعور بیدار کیا، ہدایت کرتے کہ جب بھی بس یا ٹرین میں سفر کریں ٹکٹ ضرور لو۔ میں نے ایک مرتبہ انہیں بتایا کہ بس میں کنڈیکٹر نہیں آیا اس لیے ٹکٹ نہ لے پایا، حکم دیا کہ اگلی مرتبہ دو ٹکٹ لینا تا کہ تمہاری طرف سے ادائیگی ہوجائے اور مطلوبہ رقم ادارے تک پہنچ جائے۔ ایک اور موقع پر ہم سب بہن بھائیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا یہ معمول رہا کہ میں اپنی آمدنی کا پانچ فی صد دینی و دیگر ضروری مدات پر خرچ کیا کرتا تھا، اگر تم بھی بہتر سمجھو تو اس طریقے کو اپنائے رکھنا۔ الحمدللہ دو عشرے گزرنے کے بعد بھی ہم اپنی آمدنی کا 5 فی صد ان کی نصیحت کے مطابق خرچ کرکے اپنی دُنیا و آخرت سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے جس نظریہ سے محبت کی اور جسے چاہا اسی پر قائم رہے، اس ہی کی بدولت ملک میں سیاسی تبدیلی ان کا مطمح نظر تھی۔ یہاں میری مراد ’’جماعت اسلامی‘‘ سے ان کی وابستگی ہے کہ ان کا اوڑھنا بچھونا وہ نظریات تھے جو ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی کے لیے رواں دواں تھے۔ وہ جمہوری روایات کے امین اور عوام کی اکثریت کے بل پہ سیاسی تبدیلی کے حامی تھے۔ غرض یہ کہ ان کی زندگی اسلام کی سربلندی کے لیے ایک رہو کی زندگی کے مانند تھی اور اس مقصد کے حصول میں وہ تادم مرگ مصروف رہے۔ بالآخر
فاعبد ربک حتی یاتیک الیقین
کی تعمیل کرتے ہوئے اسی حالت میں 14 اکتوبر 2001 کو خالق حقیقی سے جاملے۔