سب کچھ ایجنڈے کے مطابق ہے

1124

پاکستان میں ہر کام منصوبے کے مطابق ہورہا ہے۔ سیاسی رہنما اور جماعتیں اسے رجیم چینج، امپورٹڈ حکومت، سلیکٹڈ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی سمجھ رہے ہیں۔ صاف نظر آنے لگا ہے کہ ایک عالمی ایجنڈا پاکستان کا گھیرائو کرنے کے لیے مسلسل تعاقب کررہا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے ساتھ ہی اس کے لیے چومکھی مشکلات کا آغاز ہوگیا تھا۔ پھر نالائق حکمرانوں، فوجی ڈکٹیٹرز اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر ملک کا بیڑا غرق کردیا۔ پی ٹی آئی کے سربراہ اپریل 2022ء میں حکومت سے نکلتے ہی اور پی ڈی ایم کی حکومت بنتے ہی یہ شور کرنے لگے کہ نئی حکومت نے معیشت تباہ کردی۔ یہ بات جانے اور سمجھے بغیر کہ ایک سال کے اقدامات کا اثر اگلے سال آتا ہے۔ عمران خان کا یہ بیانیہ بہت سے لوگوں نے ہضم کرلیا کہ نئی حکومت کے آتے ہی معیشت تباہی کی طرف چل پڑی۔ نئی حکومت جو کچھ کررہی ہے اس کے نتائج اس سال جون کے بعد سے آئیں گے۔ اور پی ڈی ایم کی حکومت جو کچھ کررہی ہے اس کے نتائج اس سے بھی زیادہ خوفناک ہوں گے۔ جو کچھ ہورہا ہے وہ عمران خان کی حکومت بھی کررہی تھی اور پی ڈی ایم کی بھی کررہی ہے، اس سے قبل کے حکمران بھی وہی کررہے تھے اور جرنیل بھی نواز شریف اور پیپلز پارٹی بشمول بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری سب کرتے رہے اور اب بھی وہی ہورہا ہے۔ ہمارے حکمران آئی ایم ایف، امریکا، چین اور مغرب کے غلام ہیں اور یہی غلامی تمام حکمرانوں کو وہ کرنے پر مجبور کرتی ہے جو آج بھی کیا جارہا ہے۔ مخلوط حکومت نے قوم پر 300 ارب کے نئے ٹیکس مسلط کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ جتنے بھی اقدام ہوں گے ان کا تمام اثر اور بوجھ عوام پر ہی پڑے گا۔ مثال کے طور پر اگر بینکوں کی آمدنی پر لیوی اور سگریٹس یا ٹھنڈے مشروبات اور جہازوں کے ٹکٹ مہنگے کیے جائیں گے تو ان میں سے بیشتر کا تو براہِ راست اثر عوام پر پڑے گا اور حکومت کیا سمجھتی ہے کہ بینکوں کی آمدن پر لیوی کہاں سے دی جائے گی۔ وہ بھی عوام سے وصول کریں گے۔ ابھی 120 روپے ماہانہ موبائل پر پیغام کے وصول کررہے ہیں، اگلے ماہ سے ڈیڑھ سو کردیں گے۔ ورنہ کوئی اور راستہ بنا لیںگے ۔قوم کو 300 ارب کے ٹیکس کا منی بجٹ پیش کرنے کے بعد پھر لالی پاپ دیا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ اگلے ہفتے تک ہوجائے گا۔ جبکہ آئی ایم ایف نے صاف کہہ دیا ہے کہ معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ سیاسی اتفاق رائے بھی ناگزیر ہے۔ اور چند روز میں یہ سارے سیاسی دشمن ایک ساتھ ہاتھ اُٹھا کر ایک پیکیج منظور کرارہے ہوں گے جس میں آئی ایم ایف کی شرائط سیکورٹی کے نام پر عوام کے قتل کا لائسنس اور پورے ملک کو جنرل پرویز مشرف اور جنرل باجوہ کے ادوار کی طرح اُدھیڑ کر رکھ دینے کے منصوبوں کی منطوری ہوگی۔ اسے پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ قرار دیا جائے گا۔ لیکن پارلیمنٹ میں موجود حکمران، نام نہاد اپوزیشن کیا عوام کی نمائندگی کررہے ہیں۔ وزرا ایوان سے غیر حاضر رہتے ہیں، چند ایک لوگ سوالات کرتے ہیں تو جواب دینے والا ہی کوئی نہیں ہوتا اور پی ٹی آئی تو پارلیمنٹ میں اسی شرط پر آنا چاہتی ہے کہ اس کی حکومت ہو۔ اس کے ارکان کے استعفے بھی آگئے اور اب قبول بھی کرلیے گئے ہیں اور انہیں اس پر اعتراض ہے کہ استعفے کیوں منظور کیے گئے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کا ایجنڈا ملک پر مسلط ہے وہ اپنا ایجنڈا مسلسل آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہر پارٹی سمجھ رہی ہے کہ وہ ملک چلاتی ہے اور دوسری پارٹی آئی ایم ایف کی غلام ہے۔ حالانکہ ہر پارٹی ایجنڈے کی غلام ہے اور اسے آگے بڑھارہی ہے۔ اگر ملک میں کوئی پارٹی بھی حکمران نہ ہو بلکہ حکومت ہی نہ ہو پھر بھی جو لوگ معاملات چلاتے ہیں وہ اسی طرح پٹرول مہنگا کرتے رہیں گے اور اسی طرح ٹیکس بڑھاتے رہیں گے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر بھی عمل ہوتا رہے گا۔ لہٰذا اگر قوم اس کھیل کو سمجھ لے تو وہ پہلے ان ایجنٹوں سے چھٹکارا حاصل کرے یہ ایک تماشا لگائے ہوئے ہیں ان کا ہدایتکار ان میں سے ایک کردار کو آگے بڑھاتا ہے اور اسے حکمران کا کردار دیتا ہے۔ دوسرے کو اپوزیشن کا اور کچھ چھوٹے گروہوں کو وزن پورا کرنے والا بٹہ بنادیتا ہے۔ جس طرف وزن بڑھانا ہو انہیں اس طرف ڈال دیا جاتا ہے، انہیں عرف عام میں لوٹا کہاجاتا ہے۔ قوم نے ملک پر مسلط ان ایجنٹوں کو اب تو پہچان لیا ہوگا۔ ہر ایک یہ کہتا ہے کہ بس اب ملک ترقی کی راہ پر چل پڑے گا لیکن ملک اس تباہی کی راہ پر چل رہا ہے جس پر ایجنڈے والے ڈالنا چاہتے ہیں۔ہر حکمراں یہی کہا ہے کہ میں ملک کو آگے لے جا رہا ہوں اور ہر اپوزیشن لیڈر یہ کہتا ہے کہ حکومت ملک تباہ کر رہی ہے ۔ حالانکہ یہ سب باریاں ہی لگاتے رہے ہیں۔