کشمیریوں کا حق ِ خودارادیت آج تک سوالیہ نشان

1041

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کا راج ہے، بھارت نے وہاں طویل عرصے سے فوجی محاصرہ کررکھا ہے، روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، خوف اور دہشت کا ماحول ہے۔ بھارتی حکومت نے آرمڈ فورسز ایکٹ (خصوصی اختیارات) اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے نام نہاد اور انسان دشمن قوانین متعارف کرواکر کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کی ہے اور ان قوانین کو سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں من مانی گرفتاریاں اور غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنا معمول ہے۔ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے، کشمیریوں کا حق ِ خودارادیت آج تک سوالیہ نشان ہے۔ کشمیری روزانہ کربلا جیسے حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ کشمیر 1948ء سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود تصفیہ طلب مسئلہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آج مسئلہ کشمیر زندہ ہے تو وہ ان کشمیریوں کی وجہ سے ہے جو اپنے سپوتوں کی مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں، اور اس جدوجہد میں پاکستان کے عوام اْن کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ قائداعظم کے ذاتی معالج ڈاکٹر ریاض کے مطابق ’’قائداعظم کو کشمیر اور کشمیریوں سے اتنی محبت تھی کہ وہ بستر مرگ پر بھی شہ رگ کے لیے پریشان تھے‘‘۔ لیکن ریاست پاکستان کا کردار اپنے قائد سے انحراف کا نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کشمیر کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ جو لوگ اس ملک کے ساتھ جینا اور مرنا چاہتے ہیں اور جس کے لیے اتنی قربانیاں دے رہے ہیں وہ اْن سے بے خبر ہے۔ 1989ء سے اب تک 34 برسوں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ جبری گمشدگیاں اور روزانہ کا تشدد الگ ہے۔ اس کا کشمیر کے لوگوں پر تباہ کن اثر پڑا ہے، وہ اپنوں کے غم اور صدمے کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
5 فروری کشمیری عوام کی جدوجہد کو تسلیم کرنے، اْن پر ہونے والے مظالم کے خاتمے کا مطالبہ کرنے اور کشمیریوں کے ساتھ اظہارِیکجہتی کا دن ہے۔ آج کے دن یوم یکجہتی ِ کشمیر منانے کا آغاز 1990ء میں اْس وقت ہوا جب جماعت اسلامی پاکستان کے اْس وقت کے امیر قاضی حسین احمد نے قوم کو آگاہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ تحریکِ آزادی کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے 5 فروری کو یومِ کشمیر منانے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے کا اعلان کیا تھا، اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، لیکن اس باب میں سب سے اہم بات مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جدوجہد اور استقامت ہے جو انہوں نے بھارتی مظالم کے سامنے دکھائی ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو کشمیری عوام کے انسانی حقوق کے احترام اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عملی قدم اْٹھانا چاہیے، لیکن اْن کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عالمی برادری کشمیری عوام کی، حق ِ خودارادیت کے لیے جاری جدوجہد کی حمایت کرے۔ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا خود تعین کرنے کا حق ہے اور انہیں اپنی سیاسی حیثیت کا خود فیصلہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ بھارت پر دبائو ڈالے کہ وہ کشمیری عوام کے ساتھ بامعنی مذاکرات کرے اور ان کے حق ِ خودارادیت کا احترام کرے۔ اس دن ہمیں کشمیر کے لوگوں اور انصاف اور آزادی کے لیے اْن کی جدوجہد کو یاد رکھنا چاہیے۔ ہمیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور ان کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر قومی اتحاد کی علامت بھی ہے۔ حکومت ِ پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ کشمیریوں کو حق ِ خودارادیت دلانے کے لیے عالمی سطح پر آواز بلند کرے۔