جھوٹوں کی حکومت یا حکومتوں کے جھوٹ

590

حکومت کے جھوٹوں یا جھوٹوں کی حکومت کے ہوتے ہوئے قوم کسی بات پر یقین نہیں کرسکتی۔ ایک دن اوگرا کے ترجمان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں خبروں کی سختی سے تردید کی بلکہ انہیں گمراہ کن قرار دیا، لیکن وزیر خزانہ نے اگلی صبح ہی پٹرول کی قیمت وہیں پہنچادی جہاں سے انہوں نے اپنے آنے کے بعد کم کی تھی۔ یعنی ایک جھٹکے میں 35 روپے اضافہ کردیا گیا۔ گویا یہ اضافہ نہیں ہے بلکہ اضافہ تو ابھی ہوگا، انہوں نے تو ابھی وہ قیمت بحال کی ہے جہاں سے انہوں نے کمی کی تھی۔ لیکن پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے والے دن ہی وفاقی وزیر پانی و بجلی خرم دستگیر نے کہہ دیا کہ بجلی کی قیمت میں فوری اضافہ نہیں ہورہا۔ ان کی اس وضاحت سے قوم میں مزید سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ اب جبکہ حکومت آئی ایم ایف کے سامنے مکمل ڈھیر ہوچکی ہے تو بجلی، پٹرول، اشیائے خوردنوش، دوائوں، ٹرانسپورٹ کرایوں سمیت ہر چیز کی قیمت بڑھنے کی خبر دیواروں پر لکھی نظر آرہی ہے۔ ہمارے حکمراں جنہیں جھوٹوں کا بادشاہ کہا جائے تو سابق ناراض ہوجاتا ہے یا ان کے بعد آنے والا کیونکر ہر ایک کی پٹاری میں بڑے سے بڑا جھوٹ پڑا ہے۔ خرم دستگیر کہتے ہیں کہ قیمت میں اضافے کا کوئی منصوبہ بھی زیر غور نہیں ہے۔ ان کی اس بات سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ حکومت کے پاس درحقیقت کوئی منصوبہ ہے ہی نہیں بلکہ اس کو جو حکم ملتا ہے وہ اسے بجا لاتی ہے۔ منصوبے تو وہ بناتے ہیں جو آزاد ہوں، عوام کا درد رکھتے ہوں اور ملک کے لیے مخلص ہوں۔ یہ لوگ تو حکومت میں آتے ہی اپنے حسابات ٹھیک کرنے کے لیے ہیں۔ جس کے حسابات مسلم لیگ کے دور میں ٹھیک نہ ہوسکے وہ پارٹی بدل لیتا ہے۔ جیسا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دس لوٹے باقاعدہ طے کرکے مسلم لیگ (ق) کو دیے تھے اور ان میں سے کسی کے خلاف تادیبی کارروائی بھی نہیں کی تھی۔ اس کے بعد (ق) لیگ سے یہ لوٹے مسلم لیگ میں آئے تھے اور اپنے حسابات ٹھیک کرلیے تھے۔ اس کے بعد جب پی ٹی آئی کو لانے کا فیصلہ ہوا تو مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور (ق) لیگ سے تمام لوٹوں نے ہجرت کی اور پی ٹی آئی کا حصہ بنے۔ انہیں ایک باوقار یا مناسب سا نام دے دیا گیا اور الیکٹ ایبلز کہا جانے لگا۔ یہ سب کسی اصول، نظریے یا قومی مسئلے پر اختلاف رائے کی وجہ سے پارٹیاں نہیں بدلتے، یہ اپنے مالی معاملات ٹھیک کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس کے منہ میں جو آئے کہہ دیتا ہے۔ وفاقی وزیر خرم دستگیر نے یہ کہہ تو دیا کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کا کوئی منصوبہ نہیں لیکن یہ حقیقت ہر پاکستانی جانتا ہے کہ یہاں بجٹ، منصوبے، ترقی، تعمیرات، سرمایہ کاری، ڈالر کی قدر سمیت کوئی چیز اپنی نہیں ہوتی۔ بلکہ حکومتیں بھی بننے کا فیصلہ باہر ہی ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان میں وافر لوگ اور ادارے ہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے جھوٹ بولنے کا عمل نیا نہیں ہے اور ان کے جھوٹ پر یقین کرلینے کا عوام کا رویہ بھی نیا نہیں ہے۔ اگر موجودہ تین پارٹیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہی تین پارٹیاں ایسی نکلیں گی جن کے سربراہوں، وزیروں، مشیروں نے ہر قسم کے جھوٹ بولے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے اور عوام سے تینوں چیزیں چھین لیں۔ نواز شریف پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا دعویٰ لے کر آئے اور ٹائیگر کو سگِ امریکا بنادیا۔ پیپلزپارٹی یا بے نظیر روشن خیالی کا بھوت لے کر آئیں اور ملک کو نہایت تنگ خیالی اور مغرب کی گود میں پھینک گئیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر اور طرح طرح کے دعوے کیے اور آخر کار حکومت میں آتے ہی آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ کردیا۔ پی ٹی آئی ان میں واحد جماعت ہے جو کھل کر آئی ایم ایف کے خلاف موقف کا اظہار کرتی رہی ہے لیکن اس نے بھی آئی ایم ایف کو مشکل کشا سمجھا۔ ساری دنیا کورونا کی نام نہاد وبا کے بعد سے شدید معاشی بحران کا شکار ہے، امریکا خود ڈیفالٹ کی حد کو پہنچ گیا ہے، گزشتہ ہفتے امریکی حکومت نے کانگریس میں قرارداد پیش کرکے قرض کی حد میں اضافہ کردیا تا کہ ملک ڈیفالٹ نہ ہو اور اب امریکی حکومت اور اپوزیشن ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے ساتھ بیٹھنے پر تیار ہوگئے ہیں۔ جھوٹ تو امریکی حکمران بھی بولتے ہیں لیکن اپنے عوام سے اس طرح کے جھوٹ نہیں بولتے جیسے ہمارے حکمران بولتے ہیں۔ اگر نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور عمران خان اس ملک کے ساتھ سنجیدہ ہیں تو ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے ایک جگہ سر جوڑ کر بیٹھیں۔ خصوصاً عمران خان جو ڈیفالٹ کے خطرے سے سب سے زیادہ واقف ہیں اور اس سے خبردار کررہے ہیں انہیں تو خود بڑھ کر پیشکش کرنی چاہیے کہ آئو مل کر بیٹھیں۔ لیکن یہ حکمران ٹولہ صرف جھوٹ و جھوٹے دعوے، جھوٹے الزامات، مقدمات اور جھوٹی ترقی کے نعروں کے سہارے اپنی سیاست میں مصروف ہے۔ ان تمام گروہوں سے جان چھڑانی ہوگی۔