اقتدار کی رسہ کشی، عوام رُل گئی

769

پاکستان کے حکمران ٹولے بشمول اپوزیشن سے اب ملک کے عوام کے لیے سوچنے اور اس بارے میں غور کرنے کی توقع تو ہرگز نہیں کی جاسکتی بلکہ اب تو ان کی زبانوں پر میں میں اور تُو تُو کے سوا کچھ نہیں۔ عمران خان نے زرداری کو کچھ کہہ دیا۔ بلاول نے عمران کو پی ٹی آئی رہنمائوں نے مریم نواز کو اور پھر سب اس کا جواب دینے کے چکر میں ہیں۔ مسلم لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کی تمام تر کوشش اپنے مخالف کو بدنام کرنے اور اپنے بارے میں بڑے بڑے دعوے کرنے کے گرد گھوم رہی ہے۔ ذاتیات تو پہلے ہی سیاست کا مرکزی موضوع بنادی گئی تھی لیکن اب خاندانوں تک بھی بات پہنچی ہوئی ہے۔ جس قسم کے ہمارے یہ حکمران سیاستدان ہیں ان سے کچھ بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں فحش گالیوں پر اُتر آئیں۔ عمران خان نے اپنے قتل کی ایک اور سازش کا انکشاف کیا اور الزام آصف زرداری پر عائد کردیا جن کی سازشوں کا علم لوگوں کو بہت عرصے بعد ہوتا ہے۔ آج تک بے نظیر قتل کے سلسلے میں بس شبہ ہی کیا جاتا ہے اگر خان صاحب کو پہلے سے علم ہونے کا فن اب حاصل ہوا ہے تو اور بات ہے ورنہ جب وہ حکمران تھے تو انہیں پہلے سے کسی چیز کا علم نہیں ہوتا تھا۔ تینوں پارٹیوں کی کوشش اپنی سیاست کا حصول ہے اور اس میں دو خاندان واقعی بھرپور طریقے سے مصروف عمل ہیں، جب کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کا کوئی خاندان نہیں ہے لیکن وہ بھی اس کام میں مصروف ہے۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کی گفتگو کا موضوع فواد چودھری، نئے انتخابات، مریم نواز کی واپسی، بلاول کی سرگرمیاں، عمران خان پر حملہ ان کو نااہل کرنا یا بچانا وغیرہ ہے۔ لیکن اس سارے ہنگامے میں پٹرول مہنگا کردیا گیا۔ آئی ایم ایف کے استقبال کے لئے یہ پہلا تحفہ دیا گیا جو مریم نواز کی تین ساڑھے تین ماہ بعد وطن واپسی کا تحفہ قرار دیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے نزدیک فواد چودھری پر ظلم ہوا ہے۔ جبکہ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ انہیں ٹھیک گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ ماحول کو مزید گرم کررہے ہیں کہ عمران خان کو بھی گرفتار ہوجانا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ان باتوں کے لیے یہ پارٹیاں اپنے چمچوں اور حامیوں کو استعمال کریں اور خود مرکزی ٹیم عوام کے مسائل کے حل کے لیے سرجوڑ کر بیٹھے لیکن چونکہ کسی کا مرکز و محور عوام نہیں ہیں اس لیے وہ سردھڑ کی بازی اقتدار بچانے یا حاصل کرنے پر لگائے ہوئے ہیں۔ اگر یہی صورت رہی تو ملک میں جگہ جگہ لوٹ مار شروع ہوجائے گی۔ پٹرول، آٹا، چینی، دودھ، دہی، دال، چاول جیسی بنیادی اشیا دوائیں وغیرہ سب کچھ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے اور یہ ٹولا صرف تیرا چور میرا چور کے مقابلے میں مصروف ہے۔ حکمران آئین میں وہ گنجائش تلاش کرنے میں مصروف ہیں جو ان کو اپنے عزائم کی تکمیل میں مدد دے اور ان کا اقتدار مزید طویل ہوسکے۔ چنانچہ وزیرقانون کہتے ہیں کہ آئین میں انتخابات میں تاخیر یا نگراں حکومتوں میں توسیع کی گنجائش ہے اور شاہد خاقان عباسی اسی کیمپ میں ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آئین 90 روز میں الیکشن کا کہتا ہے۔ ان لوگوں سے یہ پوچھا جائے کہ آئین عوام کو روٹی کپڑا مکان صحت تعلیم کا حق بھی تو دیتا ہے۔ آئین انہیں یہ سب کچھ فراہم کرنے کا پابند بھی تو بناتا ہے۔ یہ حکمران اپنے آئینی فرائض چھوڑ کر آئینی حقوق کے لیے بے چین ہورہے ہیں۔ اپوزیشن والے الیکشن لڑتے ہیں جیت جاتے ہیں لیکن اسمبلیوں میں نہیں بیٹھ رہے۔ اپنی حکمرانی کے دور میں معاملات پارلیمنٹ میں طے کرنے کی بات کرتے تھے لیکن جب ان کو حکمرانی نہیں ملی تھی تو کنٹینر پر 126 دن گزار دیے اسمبلیوں میں نہیں گئے۔ آئین اسمبلی کا الیکشن لڑ کر جیتنے والے ہر فرد سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اپنے ملک کے آئین کی پاسداری کے لیے ملک کی خیر خواہی کے کام کرے لیکن یہاں کون آئین کی پاسداری کے حلف کو پورا کررہا ہے۔ درحقیقت پیپلز پارٹی نے بلاول کو اور نواز شریف نے مریم نواز کو مستقبل کی سیاست میں پارٹی حوالے کرنے اور اقتدار تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں پارٹی قیادت سے زیادہ وزارت عظمیٰ کے کئی امیدوار ہیں۔ شہباز شریف، حمزہ شہباز، نواز شریف، مریم نواز اور کچھ مسلم لیگی رہنما بھی اس چھینا جھپٹی میں کوئی عہدہ لے اُڑنے کو بے چین ہیں۔ اس جنگ میں مسلم لیگ کے علاوہ پی ٹی آئی میں بھی کھینچا تانی ہے۔ بظاہر سب عمران خان پر متفق ہیں لیکن اِدھر الیکشن کمیشن یا کسی عدالت سے انہیں پارٹی عہدے سے ہٹائے جانے کا فیصلہ آیا اُدھر پی ٹی آئی کے سارے طالع آزما سامنے آجائیں گے۔ جتنا پیسہ یہ لوگ اپنے دھڑے مضبوط کرنے اور سیاست میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا حکومت بنانے بگاڑنے پر خرچ کررہے ہیں اس میں عوام کو کم از کم آٹا، چینی اور دوائیں تو دے سکتے تھے۔ کہیں سڑکیں بن سکتی تھیں، کہیں ڈاکٹر مہیا کیے جاسکتے تھے تعلیم تو ان کی ترجیح ہی نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہورہا بلکہ یہ لوگ یہ سب کچھ چھین رہے ہیں۔ مریم نواز ایک ایسی شخصیت ہیں جن پر مقدمات قائم تھے ان کے والد پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں۔ وزیراعظم خود عدالت سے سزا پاچکے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری کے تو کیا کہنے… پی ٹی آئی میں موجود دودھ کے دھلے مزید دھل رہے ہیں۔ مخصوص لوگوں کے خلاف ریفرنس بھی واپس ہورہے ہیں۔ گویا حکومت اور اس کی ساری مشینری تمام ادارے اس دھندے میں لگے ہوئے ہیں انہیں چاہیے کہ اب بس کردیں۔ معاملات عوام کے ہاتھ جانے سے پہلے کوئی درست راستہ اختیار کرلیں۔ ورنہ جس قسم کی باتیں کی جارہی ہیں وہ تو ملک کے ڈیفالٹ والی ہیں لیکن ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات کی نشاندہی کرنے والے تو نئے الیکشن پر زور دے رہے ہیں۔ اگر نہیں جیتے تو پھر نئے الیکشن کا مطالبہ کردیں گے۔ عوام اب تک تو ان چہروں کو اچھی طرح پہچان چکے ہوں گے جو عوام ہی کے نام پر ان ہی کا استحصال کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ان چہروں اور ان کو کٹھ پتلی کی طرح ہلانے والے ہاتھوں کو بھی روک دیں ورنہ ڈیفالٹ ہو یا نہیں انارکی اور انتشار ضرور ہوگا۔