کیا انصاف ہوگیا۔۔۔۔؟

492

کراچی پولیس میں خوف و دہشت کی علامت سمجھے جانے والے ایس ایس پی ملیر رائو انوار کو نقیب اللہ قتل کیس میں بری کردیا گیا۔ رائو انوار سمیت دیگر ملزمان کو بھی بری کردیا گیا ہے۔ رائو انوار پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس چل رہا تھا۔ نقیب اللہ محسود کو جنوری 2018ء میں قتل کردیا گیا تھا۔ اس کی ایف آئی آر درج کی گئی اور مارچ 2018ء میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ گزشتہ 6 برس میں انصاف کچھ اس طرح ہوا کہ پہلے تو رائو انوار ہاتھ نہیں آرہے تھے پھر مشکل سے ہاتھ آئے اور عدالت نے پورے احترام کے ساتھ قتل کے ملزم کی درخواست ضمانت کی سماعت کی اور انہیں ضمانت دے دی گئی۔ اس کے بعد مقدمے کی کارروائی چلتی رہی اور چلتی ہی چلی گئی، پھر وہی ہوا جو ایسے مقدمات میں ہوتا ہے کہ پہلے گواہ بلائے گئے، پھر ایک ایک کرکے لاپتا یا غائب ہونے لگے، پھر ایک ایک کرکے منحرف ہونے لگے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بیشتر گواہ اسی محکمے کے تھے اور پیٹی بند بھائی کے خلاف گواہی دینے پر شاید شرمندہ تھے یا انہیں دبائو میں لیا گیا اور وہ منحرف ہوگئے۔ پاکستان کے عدالتی نظام کے تناظر میں تو اس کیس کا فیصلہ نسبتاً جلدی ہوگیا ورنہ 6 سال کی مدت بھی کم نہیں ہوتی۔ نقیب اللہ کے والد انصاف کی آرزو لیے اللہ کی عدالت میں پیش ہوگئے ہیں اور اپنے بچوں کو وصیت کردی تھی کہ اگر دنیاوی عدالت میں انصاف نہیں ملا تو انصاف کے لیے اپنے رب کی بارگاہ میں مقدمہ پیش کروں گا اور یہ بات بڑے سے بڑا فرعون بھی جانتا ہے کہ اللہ کی عدالت وہ ہے جس میں نہ صرف انصاف ہوتا ہے اور سب کو انصاف ملتا ہے بلکہ وہاں دھاگے برابر زیادتی یا ظلم نہیں ہوتا، قانونی طور پر تو محکمے کو ان گواہوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی جنہوں نے پہلے رائو انوار کے خلاف گواہیاں دیں اور بعد میں منحرف ہوگئے۔ گواہوں کے بارے میں تو یہ حکم ہے کہ جو گواہی دو اس پر قائم رہو۔ اور یہ حکم بھی ہے کہ گواہوں کو پریشان یا تنگ نہ کیا جائے۔ لیکن ہمارے ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک ریمارکس دینے والے جج تو مل جائیں گے لیکن ان کی عدالتوں سے سائلین کو انصاف نہیں ملتا۔ اگر جج ہی ملزم کا نام لے کر ’’صاحب‘‘ آگئے ہیں کا استفسار کرے تو اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ انصاف کا معیار کیا ہوگا۔ پاکستان میں قتل کے مقدمات میں عدالتوں نے انصاف بھی کیا ہے اور اس میں بس 30 برس کی تاخیر ہوئی ہے۔ کیا ہی اچھا انصاف ہوتا ہے کہ قتل کے ملزموں میں سے کوئی جیل میں مر بھی جاتا ہے۔ کسی کا باپ 90 برس کی عمر میں جائداد کے کاغذات حاصل کرتا ہے اور کوئی کاغذ حاصل کرکے بھی جائداد پر قبضہ حاصل نہیں کرپاتا۔ نظام انصاف پر تنقید محض برائے تنقید نہیں ہے بلکہ اگر یوں ہوتا کہ عدالتیں اور حکومتیں کسی کو تحفظ دینے کی صلاحیتیں ہی نہیں رکھتی ہوں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ عدالت اور حکومت مجبور ہے۔ لیکن ہماری عدالتیں جو منوانا چاہتی ہیں وہ منوا کر رہتی ہیں حکومتیں جو کرنا چاہتی ہیں کرڈالتی ہیں۔ دیکھتی آنکھیں اور زمین چیخ چیخ کر گواہی دے رہی تھی کہ نسلہ ٹاور کراچی کے لیے تعمیر کی اجازت 16 اداروں نے دی تھی لیکن کسی ایک ادارے کو سزا نہیں دی گئی۔ کسی ایک ادارے کے سربراہ یا افسر کو سزا نہیں دی گئی، حتیٰ کہ ان کے بارے میں ایک پراسرار خاموشی رہی، یہاں تک کہ درجنوں لوگوں کی عمر بھر کی کمائی زمین کے برابر کردی گئی۔ عدلیہ کا سر فخر سے بلند ہوا انصاف ہوگیا۔ انصاف تو اس وقت بھی ہوا جب پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکا کے ہاتھوں فروخت کرنے والا جرنیل، تین بار آئین توڑنے والا جنرل پرویز مشرف بڑے آرام سے ملک سے باہر چلا گیا اور شور مچ گیا کہ اِس نے اجازت دی، اُس نے اجازت دی۔ کسی عدالت نے آئین شکنی پر اسے سزا نہیں دی۔ بس مقدمہ سماعت، گواہیاں، پیشیاں، دلائل اور وقت پورا ہوگیا۔ اور یہ انصاف بھی ہوا کہ جس زمانے میں نسلہ ٹاور گرایا جارہا تھا اس زمانے میں وزیراعظم کا بنی گالہ ریگولرائز کیا جارہا تھا۔ رائو انوار ہی کی طرح کا ایک اور انصاف اس چشم فلک نے دیکھا کہ جب ساہیوال میں درجنوں لوگوں کے سامنے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے بچوں کے سامنے باپ کو گولیوں سے بھون دیا، ان کے خلاف بھی مقدمہ چلا اور وہ سب بری ہوگئے۔ تو اگر رائو انوار بری ہوگئے تو کیا ہوگیا۔ جب بھی کوئی مقدمہ طول کھینچے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انصاف نہیں انصاف کے نام پر ظلم ہوگا۔ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں یہاں جو نظام رائج ہونا چاہیے تھا وہ اسلام کا نظام عدل تھا لیکن یہاں عادل، حاکم، افسر، ادارے کوئی عدل نہیں کرتا، ان کی اپنی زندگیاں عدل کے منافی گزر رہی ہوتی ہیں، وہ دوسروں کو کیسے انصاف دیں گے۔ معاملہ ابھی انسداد دہشت گردی عدالت سے نکلا ہے۔ نقیب اللہ کے گھر والوں نے ہائی کورٹ اور اگر انصاف نہ ملا تو سپریم کورٹ بھی جانے کا اعلان کیا ہے، لیکن منصفیں اور مختاروں کو بھی معلوم ہے کہ سب پاتے ہیں انصاف جہاں وہ بڑی عدالت زندہ ہے۔