اداریہ برائے پیرتوہین قرآن، امت مسلمہ کی بے حسی

568

سویڈن میں ایک ملعون سیاستدان راسموس پلاڈوں نے ترک سفارتخانے کے سامنے قرآن پاک کا نسخہ نذر آتش کرکے اسے شہید کردیا۔ اس شیطانی عمل کے لیے ایک مظاہرہ ترتیب دیا گیا جس میں قرآن پاک کے خلاف ہذیان بکا گیا اور اس سارے عمل اور شیطانوں کے تحفظ کے لیے پولیس کی بھاری نفری موجود رہی۔ اس کی نگرانی میں سارا عمل ہوا۔ اس واقعے پر ترکی نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ْ پاکستان کی جانب سے بھی اظہار غم اور افسوس کیا گیا اور ایک ہلکی سی آواز کویت کی بھی آئی ہے۔ قرآن پاک کی بے حرمتی پر امت مسلمہ بے چین ہوگئی ہے لیکن حکمران محض رسمی کارروائیاں کررہے ہیں۔ اگر 57 ممالک سے سویڈش سفیر نکال دیے جائیں تو ایک دن میں ملعون گرفتار ہو کر جیل پہنچ جائے لیکن یہ پھس پھسا ردعمل بتا رہا ہے کہ امت مسلمہ کے حکمرانوں میں اب غیرت باقی نہیں رہی ہے جیسا کہ پہلے بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ اور اس قسم کے دوسرے افعال امت مسلمہ کے ردعمل اور حکمرانوں میں غیرت کی امق دیکھنے کے لیے کیے جاتے ہیں جس کے بعد اس شیطانی فعل کے سرپرست مسلم ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھاتے ہیں، پہلے یہ کام سعودی سفارتخانے کے سامنے ہوتا تھا اور نہ بھی ہو تو سب سے پہلا مضبوط ردعمل پاکستان اور سعودی عرب کا آتا تھا اب تو نہایت بے حسی کا مظاہرہ ہوا ہے تین ملکوں نے نام ہی سامنے آسکے ہیں اور وہ بھی رسمی کارروائی سے۔ کسی ملک نے سویڈش سفیر کو نہیں نکالا طلب کرکے احتجاجی مراسلہ تھمانا تو کسی حکومت کا اولین کام نہیں۔ مراسلہ تو احتجاج کرنے والی سیاسی مذہبی جماعتیں بھی دے سکتی ہیں۔ معاملہ صرف یہ نہیں کہ سعودی عرب کے سفارتخانے کے سامنے واردات ہوئی یا ترک سفارتخانے کے سامنے ہوئی بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ قرآن کی توہین ہوئی ہے۔ سعودی سفارتخانے سے ترک سفارتخانے کی طرف منتقلی بھی عالمی ایجنڈے کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔ لیکن عالمی ایجنڈے کا مقابلہ امت مسلمہ کو متحد ہو کر کرنا پڑے گا۔ جب تک امت مسلمہ کے ممالک متحد ہو کر اللہ، نبیؐ اور قرآن پر ایک موقف اختیار نہیں کریں گے اس وقت تک مغرب کا یہ شیطانی سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ اس صورت حال میں بعض باتیں حیران کن ہیں۔ حال ہی میں قطر میں عالمی فٹبال کپ کی افتتاحی تقریب اور ٹورنامنٹ کے دوران تلاوت قرآن، پردے اور اسلامی ثقافت کا مظاہرہ بھی کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا یا ملا کہ قطر نے بہت بڑا کارنامہ کیا ہے۔ یقینا یہ بڑا کارنامہ تھا لیکن جب نبیؐ کی توہین ہو، اسلام کا مذاق اُرایا جائے یا قرآن کی توہین کی جائے اور واضح نظر آرہا ہو کہ سرکار کی سرپرستی میں یہ سب ہورہا ہے تو پھر کھیل کے میدان میں اسلام کی سربلندی اور اسلام کا پیغام دینے والے ملک قطر، اور خلافت کی بحالی کے علمبردار ترکی اور حرمین شریفین کے خادم ہونے کے دعویدار سعودی حکمرانوں کی ذمے داری بھاری ہوجاتی ہے۔ اور پاکستان میں تو برسوں ریاست مدینہ کا علمبردار حکمران رہا۔ اور اب تو حافظ قرآن آرمی چیف ہے، قرآن کی حفاظت سینوں میں محفوظ رکھنے سے تو ضرور ہوتی ہے لیکن جب اس کا نسخہ نذر آتش کیا جائے، مدینہ کے والی کی توہین کی جائے یا اسلامی احکامات کا مذاق اُڑایا جائے تو امت مسلمہ خادم حرمین کی طرف دیکھے گی، خلافت کی بحالی کے علمبرداروں کی طرف دیکھے گی اور پاکستانی قوم حافظ قرآن آرمی چیف کی طرف دیکھے گی اور عرب ممالک قطر کی طرف دیکھیں گے۔ ان سب کی ذمے داری ہے کہ امت کو مایوس نہ کریں، اور امت کی ذمے داری ہے کہ اپنے سیاسی، فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھے اور قرآن، نبیؐ اور اسلام کے متفقہ معاملے پر یک آواز ہوجائیں۔ پاکستان میں تو جب سے حکومت تبدیل ہوئی ہے سابق حکمران پی ٹی آئی اور موجودہ مخلوط حکومت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں کسی کا بس نہیں چل رہا کہ دوسرے کو اٹھا کر پھینک دے۔ پی ٹی آئی ملک کے ڈیفالٹ کا چرچا کررہی ہے، حکومت آئی ایم ایف کے در کے پھیرے لگارہی ہے اور تمام اداروں کودوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ ایسے میں کسی کے پاس وقت ہے کہ امت مسلمہ کے اتحاد کی بات کرے، نبی، قرآن اور اسلام کی توہین پر سخت ردعمل دے۔ ان سب کو روز محشر پیش ہو کر اس کا حساب دینا ہوگا۔ یہ کام آج نہیں کیا تو کل کسی اور کو کرنا ہوگا۔ امت کی ذمے داری بھی ہے کہ وہ اپنے تمام حکمرانوں اور طاقت کے مراکز کو ردعمل پر مجبور کرے۔یہ وہ فرض اور قرض ہے جو ہر اس فرد پر ہے جو خود کو مسلمان کہتا ہے یا امت مسلمہ کا حصہ سمجھتا ہے۔