بچت کے پرانے اقدامات کا نیا اعلان

548

پاکستانی قوم سمجھ رہی ہے کہ ہر روز نئے حالات پیدا ہورہے ہیں، حکمران نت نئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ ملکی معیشت تباہ ہورہی ہے اور یہ دہائی اتنی پراثر ہوگئی کہ وفاقی حکومت بھی خوفزدہ ہوگئی اور توانائی بچت اور معاشی بہتری کے اقدامات کا اعلان کردیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ملک بھر میں بازار اور ریستوران رات 8 بجے بند کردیے جائیں گے اور شادی ہال رات 10 بجے بند کردیے جائیں گے۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ 20 فی صد سرکاری ملازمین گھر سے کام کریں گے۔ اس کو لطیفہ کہا جائے یا قوم کے ساتھ سنگین مذاق۔ جو سرکاری ملازم دفتر میں آکر کام نہیں کرتے وہ گھر کے پرسکون ماحول میں کیسے کام کرنے لگیں گے۔ ان ہی ملازمین کے لیے تو کہا جاتا ہے کہ گھر جیسا آرام دفتر میں کہاں۔ حکومتی اقدامات میں بجلی اور گیس کی بچت کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ بجلی سے چلنے والی موٹر سائیکلوں کی درآمد تو شروع ہوچکی۔ لیکن حکومت کی یہ اطلاع کراچی سرکلر ریلوے کی طرح کی ہے۔ جس کا افتتاح کئی حکمران کرچکے، متحدہ قومی موومنٹ بار بار کرچکی اور وہ سرکلر ریلوے کسی سرکل میں داخل ہوئے بغیر سرکلر ریلوے کہلاتی رہی اور مہینوں سے وہ ٹرینیں بھی بند ہیں۔ الیکٹرک موٹر سائیکلوں کی درآمد کے بارے میں حکومت نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ کوئی نیا کام کرنے والی ہے۔ حالاں کہ مسلم لیگ ہی کی 2015ء کی حکومت میں بھی الیکٹرک موٹر سائیکلیں درآمد کی جاتی تھیں اور درآمدکنندگان نے اضافی ٹیکس سے استثنا کا مطالبہ کیا تھا۔ بالآخر 2022ء فروری میں ایف بی آر نے این آر او میں ترمیم کرکے خصوصی ٹیکس ختم کرکے 2025ء تک کی رعایت دے دی تھی۔ بہرحال حکومت نے اسے نیا اقدام قرار دیا ہے۔
اسی طرح گیس کمپنیاں گیزر کے ذریعے گیس کی بچت کے لیے آلات فراہم کریں گی۔ ایل ای ڈی بلب اور کم والٹ کے پنکھے استعمال کیے جائیں گے۔ یہ دونوں بھی پہلے سے ہوتے آرہے ہیں۔ ایل ای ڈی بلب پر تو سال بھر کی گارنٹی اور آخری دن بھی نیا بلب دینے کی پالیسی اب بھی جاری ہے۔ البتہ گیزر کے لیے جو آلات گیس کمپنیاں فراہم کریں گی یہ نیا کھاتا ہوگا جو خاصہ منافع بخش ثابت ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام کے لیے توانائی کی بچت کے اقدامات حکومت اٹھا رہی ہے اور رقم عوام کی جیبوں سے نکلوائی جائے گی۔ یہ آلات کون درآمد کرے گا اور کتنے کے درآمد کرے گا اور عوام کو کتنے میں دیے جائیں گے۔ یہ کیسی بچت ہے کہ اس کا بوجھ بھی عوام پر ڈالا جائے گا۔ جو الیکٹرک موٹر سائیکل ہے وہ بھی 90 ہزار سے شروع ہو کر اوپر تک جاتی ہے یعنی عام آدمی کے لیے نہیں ہوگی۔ یہ بھی لوگوں کا شوق پورا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ سب سے بڑا حملہ تو وفاقی وزیر توانائی خواجہ آصف نے یہ کیا ہے کہ ہماری عادتیں خراب ہوچکی ہیں۔ دنیا میں بازار 6 بجے بند ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں رات 2 بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ عادتیں تو واقعی حکمرانوں کی بھی خراب ہیں اور تاجروں کی بھی دوپہر دن چڑھے سو کر اٹھنا اور ایک بجے بازار کھلنا معمول ہے۔ کھانا وغیرہ کھا کر 2 بجے سے کام شروع کرتے ہیں تو یہ 8 بجے کیسے کام بند کردیں گے۔ ان کی اس تن آسانی کا فائدہ یا نقصان گاہک بھی اٹھائے گا اور وہ مزید تاخیر سے گھروں سے نکلتے ہیں یا دفتر سے جلدی نکل کر بازار پہنچتے ہیں تا کہ خریداری کریں اور رات گئے تک بازاروں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور سرکاری طور پر ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ یہ سرکاری ملازم گھر بیٹھ کر کام کیسے اور کیا کریں گے۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کون سے سرکاری ملازم گھروں سے کام کریں گے۔ توقع کے عین مطابق ہوٹل اور مارکیٹ ایسوسی ایشن نے 8 بجے کی بندش مسترد کردی ہے۔ دلچسپ اعلان یہ بھی ہے کہ ان اقدامات سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی اور 23 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ان اقدامات سے اگر اتنی ہی بچت ہوبھی گئی تو عوام کو کیا فائدہ پہنچایا جائے گا۔
وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی عادتیں بدلنا ہوں گی۔ لیکن ان کے پاس اس کا جواب بھی نہیں کہ اس بچت مہم میں حکومت، وزرا اور سرکاری افسروں کا حصہ کتنا ہوگا۔ یہ سارے اقدامات جن کا نیا اعلان ظاہر کرکے اعلان کیا گیا ہے وہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے سے ہوتے آرہے ہیں۔ گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے اور پیچھے بھی کی گئیں۔ اس وقت تو معیشت اچھی قرار دی جارہی تھی۔ اور یہ معیشت عمران خان کے دور میں بھی اچھی ہی قرار دی جارہی تھی لیکن بازاروں کی بندش وغیرہ کے اقدامات اس وقت بھی ہوئے۔ ان اقدامات اور دیگر اقدامات کو موثر بنانے کے لیے سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے حکمران طبقے کا مزاج ہی غیر سنجیدہ ہے۔ وہ جتنے اقدامات کرنا ہے عوام کے لیے کرنا ہے۔ اعلیٰ طبقات کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا جاتا۔ صورت حال یہ ہے کہ ملک کے تمام متوقع حکمران ٹولے صرف اسمبلیاں توڑنے اور بچانے کے چکر میں ہیں۔ ان کا سارا زور اقتدار کے حصول پر ہے۔ اور یہ اقتدار بھی اب محض چند ماہ کا ہے۔ لیکن پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی نے اور ان دونوں کے حلیفوں نے پوری دنیا میں پاکستان کو مذاق بنوا کر رکھ دیا ہے۔ حکومتیں بنتی اور گرتی رہتی ہیں اور کسی نہ کسی آئین اور قانون کے مطابق بنتی گرتی ہیں لیکن ہمارے حکمران ٹولے اور ان کو چلانے والوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہر غلط کام کو آئین کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ ایک ہی کام بیک وقت آئینی بھی قرار پاتا ہے اور غیر آئینی بھی۔ معیشت کو سہارا دینے کے لیے دیگر جو اقدامات کیے جارہے ہیں ان کا نشانہ بھی عوام ہی ہوں گے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایف بی آر مزید ٹیکس وصول کرے۔ ایف بی آر کس سے ٹیکس وصول کرے گا۔ نواز، شہباز کا خاندان، زرداری خاندان، خود عمران خان اور ان کی پارٹی کے بڑے بڑے رہنما اور وزرا ٹیکسوں کے معاملے میں غیر متوازن ثابت ہوئے ہیں۔ توشہ خانہ تو مذاق بن گیا ہے۔ کسی سرکاری تحفے کی کوئی اوقات نہیں جو حکمران ہو اپنی مرضی سے رقم لگاتا ہے اور کروڑوں کی چیز ٹکوں میں خرید کر کہتا ہے کہ میری گھڑی میری مرضی… صرف گھڑی نہیں سارے حکمران ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔ یہ معیشت کو کیسے مستحکم کریں گے، اگر سنجیدہ ہیں تو ملکی زراعت کو سنبھالیں، صنعتوں کو بچائیں، صنعتیں خود روزگار بھی دیں گی اور زرمبادلہ بھی۔ لیکن خدا کے واسطے اپنے سے اوپر قانون کو بھی تسلیم کریں۔