پاک فوج، میسروی سے جنرل عاصم منیر تک (آخری حصہ)

684

29 نومبر 2007ء کو جنرل اشفاق پرویز کیانی نے آرمی چیف کی کمان سنبھالی۔ وہ 2004ء سے 2007ء تک آئی ایس آئی سربراہ بھی رہے۔ انہیں بھی ایکسٹینشن ملی اور یوسف رضا گیلانی نے انہیں 2010 میں 24 جولائی کو تین سال کی توسیع دی۔ اپنے چھے سالہ دور میں جنرل کیانی میڈیا سے دور رہے۔ ان ہی کے دور میں حکومت اور فوج کے درمیان تنازعات موضوع بنے اور فوج پر تنقید کی گئی۔ اگر جنرل باجوہ کے دور کا آخری حصہ دیکھا جائے تو وہ فوج پر تنقید کے معاملے میں سارے جرنیلوں سے زیادہ نکلے گا۔ ان پر جتنی کھل کر تنقید کی گئی اس سے پہلے کسی پر نہ ہوئی۔ شاید جنرل کیانی اور جنرل باجوہ میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں کو دوسری ایکسٹینشن سے قبل اپنی ریٹائرمنٹ کا باضابطہ اعلان کرنا پڑا۔ جنرل کیانی کا دور بھی کوئی کم نہیں رہا۔ میموگیٹ اسکینڈل، ریمنڈڈیوس اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی شہادت کے دعوے کا واقعہ تو ایسا تھا کہ پورے دفاعی نظام پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔ البتہ جنرل کیانی کا دور جمہوریت مخالف کے طور پر یاد نہیں کیا جاتا۔ شاید اس کی وجہ اس دور میں صدر کے منصب پر آصف علی زرداری کی موجودگی ہو جو ایسے معاملات سے نہایت خوبی سے نمٹتے تھے۔ ان ہی کے دور میں جی ایچ کیو پر حملے کا واقعہ بھی ہوا تھا۔ بہرحال ایک بھرپور سنسنی خیز دور گزار کر جنرل کیانی چھے سالہ مدت کی تکمیل پر یہ کہہ کر چلے گئے کہ میرا دور ختم ہورہا ہے اب دوسروں کی باری ہے۔ لیکن یہ کام پہلے بھی ہوا جنرل ایوب 18 سال، جنرل ضیا 12 سال، جنرل یحییٰ 5 سال، جنرل موسیٰ 8 سال، جنرل ٹکا خان 4سال، جنرل مشرف 10 سال، جنرل باجوہ 6 سال منصب پر رہے اور پھر بھی یہی کہا گیا کہ اب دوسروں کی باری ہے۔
فوج کو بہت زیادہ پروفیشنل بنانے کا ٹاسک اب جنرل عاصم منیر کے سپرد ہے۔ اس سے قبل جنرل راحیل شریف نے اشفاق کیانی سے چارج لے کر صرف تین سال میں کمان چھوڑ دی۔ شاید اس کی وجہ 34 ملکی اسلامی فوج کی کمان تھی جو ان کو ملی، اب چھے سال ہونے کو ہیں وہ اس کے کمانڈر ہیں۔ ان کے بعد 29 نومبر 2016ء کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے چارج سنبھالا ان کا دور اس اعتبار سے ہنگامہ خیز رہا کہ نواز شریف کے خلاف عمران خان دھرنا بھی چلا اور عمران خان کی حکومت بھی آئی۔ ان کے دور میں فوج تاریخ میں سب سے زیادہ کھل کر اقتدار سے باہر رہتے ہوئے سیاست میں دخیل رہی۔ 2018ء کے انتخاب میں آر ٹی ایس خراب ہونے اور عمران خان کو اقتدار میں لانے کے سارے کھیل کی نگرانی کا الزام ان ہی پر ہے اور یہ الزام ہی نہیں بلکہ انہوں نے اس کا اعتراف خود بھی کیا اور ان کے ترجمانوں نے بھی کیا۔ کہتے ہیں کہ کسی پر احسان کرو تو اس کے شر سے بچو لیکن جنرل باجوہ نے جس پر احسان کیا اس کے شر سے نہ بچ سکے۔ حالاں کہ انہوں نے بھی تین سال کی توسیع لی۔ اب وہ بھی چھے سالہ مدت مکمل کرکے چلے گئے ہیں ان کے چھوڑے ہوئے سیاسی گروپ کی توپیں مسلسل فوج کے خلاف گولے اُگل رہی ہیں، اس کو بند ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ اگر جنرل عاصم منیر 29 نومبر 2025ء کو اپنی مدت مکمل کرنے کا ابھی سے اعلان کردیں کسی کو ایکسٹینشن کا خیال بھی نہ آئے تو وہ فوج کو اس قسم کے حملوں سے بچا سکتے ہیں۔
بعض باتیں بڑی حیران کن ہیں، بہت سے جرنیلوں کے دور میں بہت سے بڑے بڑے کام ہوئے لیکن جنرل ایوب کی آمد اور جنرل یحییٰ کے حوالے اقتدار کرنے کے بعد پہلا کام پاکستان کی تقسیم تھا۔ جنرل ضیا الحق کی آمد کے بعد روسی فوج افغانستان میں داخل ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف کے سیاسی حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضے کے بعد امریکا افغانستان میں داخل ہوا۔ جنرل باجوہ کے دور میں بھارت نے کشمیر پر اپنا کنٹرول نہ صرف مستحکم کیا بلکہ پاکستانی قیادت اس وقت سے اب تک نعرے بازی اور الزام تراشی میں لگی ہوئی ہے۔ ملک کے بجائے سب اقتدار کے جھگڑے میں ہیں ان کو اس جھگڑے میں الجھاتا کون ہے۔ یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں۔