پاک فوج، میسروی سے جنرل عاصم منیر تک (دوسراحصہ)

761

جنرل ضیا الحق 1988ء میں طیارے کے حادثے میں شہید ہوئے تو جنرل مرزا اسلم بیگ نے چارج سنبھالا، جو 16 اگست 1991ء تک فوج کے سربراہ رہے۔ ان کا نام بار بار جنرل ضیا کے حادثے میں ملوث ہونے والوں میں لیا گیا لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک مرتبہ بھی تحقیقات نہیں ہوئیں اور کوئی باضابطہ کمیشن نہیں بنا، جب کہ جنرل ضیا کے بیٹے اعجاز الحق حکومت میں وزیر بھی رہے۔ یہ قصہ بھی پارینہ ہوا اب اس کی کبھی کبھی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ 16 اگست 1991ء کو جنرل آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف بنے اور 8 جنوری 1993ء تک آرمی چیف رہے۔ وہ بری فوج کے آخری سربراہ تھے جو سینڈبرسٹ کے گریجویٹ تھے۔ انہیں صرف جنرل شمیم عالم پر سپر سیڈ کیا گیا۔ جنرل وحید ملٹری اکیڈمی کا کول کے کمانڈر بھی رہے۔ کراچی کے کورکمانڈر اس وقت رہے جب ایم کیو ایم کے دو گروہ ایک دوسرے کو اور اپنے مخالفین کو غیر انسانی طریقے سے تشدد کررہے تھے۔ ان سے یہ لسانی گروہ پریشان تھے، ایک الزام یہ بھی تھا کہ جنرل آصف نواز ایم کیو ایم کے مخالف ہیں۔ جنرل آصف نواز مکمل طور پر صحتمند اور سپر فٹ ہونے کے باوجود قضائے الٰہی سے 56 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ ان کے دور میں سندھ میں ڈاکوئوں کے خلاف بھی بھرپور آپریشن کیا گیا، مسافر گاڑیوں کے ساتھ فوجی گاڑیاں بھی چلتی تھیں۔ ان ہی کے دور میں جناح پور کا ڈراما بھی منظر عام پر آیا۔ نقشے بھی برآمد ہوگئے اور جناح پور زبان زد عام ہوگیا لیکن ہوا کچھ نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو سیاسی جماعتوں نے فوج کی نگرانی میں ایک دوسرے کے اغوا شدہ کارکن ایک دوسرے کے حوالے کیے اور دونوں جماعتیں باعزت سیاسی جماعتیں ہی رہیں۔
جنرل آصف نواز 8 جنوری 1993ء کو جاگنگ ٹریک پر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے، ان کے انتقال کے چار روز بعد 12 جنوری 1993ء کو جنرل عبدالوحید کاکڑ آرمی چیف بنے اور 8 جنوری 1993ء تک آرمی چیف رہے ان کا دور اس اعتبار سے بڑا زرخیز رہا کہ ان کے دور میں تین صدور رہے۔ ایک غلام اسحق خان جن کو استعفا دینا پڑا، دوسرے نگراں صدر چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد اور پھر فاروق لغاری۔ اسی طرح ان کے دور میں چار وزرائے اعظم رہے۔ نواز شریف، بلغ شیر مزاری نگراں اور معین قریشی نگراں وزیراعظم اور پھر بے نظیر بھٹو ان ہی کے دور میں۔ انہیں مقرر کرنے والے غلام اسحق خان کو بھی دھچکا لگا، انہوں نے سیاسی بحران میں غلام اسحق خان کا ساتھ نہیں دیا۔ انہوں نے دو لیفٹیننٹ جنرل بھی گھر بھیجے جو فوج کی ساکھ کو خراب کررہے تھے۔ انہوں نے سیاسی بحران ایسے حل کیا کہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے صدر غلام اسحق اور میاں نواز شریف دونوں کو گھر بھیج دیا۔ معروف صحافی اسلم خان نے لکھا ہے کہ جنرل ایسے بھی ہوتے ہیں، لیکن جنرل وحید کاکڑ کی پوری زندگی اور ان کے دور کا جائزہ اور دوسرے جرنیلوں کے قصے سننے دیکھنے اور بھگتنے کے بعد یہ کہنا چاہیے تھا کہ ’’جرنیل ایسے ہی ہونے چاہئیں‘‘۔ 12 جنوری 1996ء کو وہ ہنگاموں سے بھرپور زندگی گزار کر ریٹائر ہوگئے اور خاموشی سے اپنے گھر والوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر کسی کو گمنامی دیکھنی ہو تو جنرل عبدالوحید کی طرح کی دیکھے۔
24 جنوری 1996ء سے جنرل جہانگیر کرامت پاک فوج کے سربراہ بنے، ان کے دور میں اہم واقعات پاکستان کا باضابطہ ایٹمی دھماکے کردینا۔ لیکن ساتھ ساتھ پاکستان نے پہلی بار امریکا کو براہ راست کروز میزائل افغانستان پر داغنے کی اجازت دی اور اس نے حملے کیے۔ اسی دور میں 5 نومبر 1996ء کو پیپلز پارٹی کے صدر فاروق لغاری نے اپنی ہی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو برطرف کردیا تھا اور فروری 1997ء میں نواز شریف پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے اور آٹھویں ترمیم کا خاتمہ کردیا لیکن جب حالات بدلتے ہیں تو اقتدار کے چکر میں بہن کے دور میں بھائی قتل ہوجاتا ہے۔ اسی دور میں جنرل جہانگیر کرامت نے وزیراعظم کو نیشنل سیکورٹی کونسل بنانے کی تجویز دی تھی جس کو میاں نواز شریف نے مسترد کردیا اور دونوں میں کشیدگی ہوگئی۔ میاں صاحب نے ان سے استعفا لے کر دو افسران کو سپرسیڈ کرکے جنرل پرویز کو آرمی چیف مقرر کیا اور یوں 7 اکتوبر 1998ء کو جنرل پرویز نے کمان سنبھال لی۔ جنرل پرویز نے اپنا فوجی منصب 29 نومبر 2007ء تک نہیں چھوڑا۔ ان کا دور گرما گرم اقدامات اور ملک کی شناخت، پالیسیوں، اقدار اور مکمل رُخ تبدیل کرنے کے حوالے سے بھرپور رہا۔ ابتدائی دنوں میں جب وہ اقتدار میں آئے تو اس وقت کشمیر کے جہاد کو جہاد کہتے تھے افغانستان کی اسلامی اقدار کی وکالت کرتے تھے اور یورپی صحافی خاتون سے سوال پوچھ لیا کہ کیا آپ اپنے ملک میں افغان کلچر نافذ ہونے دیں گی؟ ان کا جواب بظاہر نفی میں تھا تو پھر گویا ہوئے کہ پھر آپ افغانستان میں اپنا کلچر کیوں لانا چاہتی ہیں۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے جنرل پرویز کی کایا پلٹ گئی، وہ کشمیری جہاد کو دراندازی مجاہدین کو دہشت گرد کہنے لگے۔ افغان مجاہدین اور مسلمانوں کو عالمی دہشت گرد کہنے لگے اور پھر ان کے گرنے کا سلسلہ رکا نہیں، وہ اتنا گر گئے کہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ خواتین کی نشستیں مخلوط میراتھن ریس اسلامی تصورات کا مذاق اُڑانا، سب سے پہلے پاکستان اور روشن خیالی کے نام پر گہرائی میں گرتے چلے گئے۔ کسی طور وردی اُتارنے پر تیار نہ تھے۔ عدلیہ کا بیڑا غرق کیا، اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ان کا دور بڑا زور و شور والا گزرا۔ عدلیہ پر براہ راست حملہ، چیف جسٹس کو بلاکر استعفا دینے پر مجبور کرنا وغیرہ، سب کچھ ان ہی کے دور میں افغانستان پر امریکی یلغار اور امریکی تسلط قائم ہوا۔