کراچی کے اصل مسائل

596

کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دسواں بڑا شہر اور ملک کا صنعتی و مالیاتی مرکز ہے۔ ملک کی مجموعی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں اس کا 20فی صد حصہ ہے۔ کراچی قومی خزانے میں 67 فی صد ریونیو جمع کراتا ہے، سندھ کے 95 فی صد بجٹ کا انحصار کراچی پر ہے، مگر اِس شہر کو اس کا حق نہیں دیا جاتا اور آج تک یہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، یہاں تک کہ بلدیاتی انتخابات سے بھی محروم ہے، اور بہانے بہانے سے ان انتخابات کو ملتوی کردیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی تاریخ 15جنوری 2023ء پر بھی شہری تذبذب کا شکار ہیں کہ الیکشن ہوگا بھی یا نہیں۔ اس ساری صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ شہر اپنی اصل سیاسی قیادت سے بھی محروم ہے اور اس کے مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اب جماعت اسلامی کے بھرپور احتجاج اور ردعمل کے بعد پیپلزپارٹی کے سیاسی ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب مستعفی ہوگئے ہیں اور اْن کے بعد ایم کیو ایم کے سفارش کردہ ڈاکٹر سیف الرحمن کو ایڈمنسٹریٹر کراچی مقرر کردیا گیا ہے۔ سیف الرحمن نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا ہے کہ ’’مرتضیٰ وہاب نے شہر کی بہترین خدمت کی ہے‘‘۔ اس ضمن امیر جماعت ِ اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نئے ایڈمنسٹریٹر کراچی سیف الرحمن کے ذریعے پیپلز پارٹی سے اپنے روابط مضبوط کررہی ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ ڈاکٹر سیف الرحمن اس وقت گورنر سندھ کے پرنسپل سیکرٹری تعینات ہیں اور گورنر سندھ ایم کیو ایم کے نمائندے ہیں۔ ڈاکٹر سیف الرحمن بلدیہ عظمیٰ کراچی میں میٹروپولیٹن کے علاوہ ضلع وسطی اور شرقی کے ڈپٹی کمشنر سمیت بلدیہ وسطی کے ایڈمنسٹریٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر سیف الرحمن اس سے قبل کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور بلوچستان میں کمشنر ژوب بھی تعینات رہے ہیں۔
کراچی اس وقت اپنے انتہائی برے وقت سے گزر رہا ہے، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا گٹھ جوڑ ہے، اور مشہور کہاوت ’’بھان متی نے کنبہ جوڑا، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘ والا معاملہ ہے، اور یہ بے مصرف جوڑ تاریخی طور پر کراچی کے لیے سب سے تباہ کن رہا ہے۔ ان پارٹیوں نے کراچی کے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہی ایم کیو ایم تھی جس نے 2013ء میں (منظور ہونے والے) سندھ لوکل باڈیز ایکٹ میں خود شہری ادارے اور اختیارات پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو دیے تھے، اور آج ایک بار پھر ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی شریک ِ جرم ہے، وہ 35سال تک کراچی کی سیاست اور ہر حکومت کے ساتھ اقتدار میں شریک رہی ہے، اس نے اِس شہر کو آخر دیا کیا ہے؟ اس سے شہر کی تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اس وقت شہر میں سیاسی بندر بانٹ ہورہی ہے، گورنر سندھ کامران ٹیسوری خاصے متحرک ہیں، وہ اس وقت نہ صرف ایم کیو ایم کے اندر معاملات ٹھیک کرنے کی سعی کررہے ہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی معاملات کررہے ہیں، اور اب ان کی کوششوں سے ایم کیو ایم پاکستان سندھ حکومت میں شامل ہونے پر رضامند ہوگئی ہے، تاہم ایک خبر کے مطابق رابطہ کمیٹی کے بعض ارکان اب بھی اس فیصلے پر ناخوش ہیں، جن کا کہنا ہے کہ بلدیات کے سوا کوئی بھی وزارت ایم کیو ایم کے لیے سودمند نہیں ہے۔ وہ صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ جیسی اہم وزارتیں لینے کا مشورہ دے رہے ہیں جن کا براہِ راست شہری علاقوں سے تعلق ہے۔ اس کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان کو دوسرے مرحلے میں سندھ کابینہ میں ایک مشیر اور ایک معاونِ خصوصی کا عہدہ بھی دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس ساری بندر بانٹ سے شہر کراچی کے لوگوں کو کیا مل رہا ہے؟ کیا یہ کراچی کے اصل مسائل ہیں؟
کراچی نہ صرف انفرا اسٹرکچر کے لحاظ سے تباہ ہے بلکہ اور دیگر مسائل بھی ہیں، یہاں کے شہریوں کی اکثریت کو صاف پانی نہیں ملتا، سیوریج سسٹم تباہ ہے، بے گھر افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ شہر میں اب ڈاکو راج پہلے سے زیادہ منظم اور مستحکم ہوتا جارہا ہے اور یہاں کے لوگ روزانہ کی بنیاد پر اپنی جمع پونجی سے محروم ہورہے ہیں۔ شاہین فورس کے قیام اور اسنیپ چیکنگ کے دعوے کے باوجود شہر میں بدستور چور، ڈاکو، لٹیرے دندناتے پھر رہے ہیں، صرف نومبر 2022ء میں شہری کروڑوں روپے مالیت کی 152 گاڑیوں اور 9 ہزار 676 موٹر سائیکلوں سے محروم ہوئے، جب کہ دو ہزار سے زائد موبائل فون چھینے گئے۔ کراچی کے ہر ہر محکمے میں کرپشن ہے یہ کون نہیں جانتا؟ حال ہی میں کراچی کے چڑیا گھر میں سوا چار کروڑ روپے کے ٹھیکوں میں مبینہ کرپشن کے مقدمے کی مثال تازہ ہے۔ اسی لیے جماعت اسلامی نے سیاسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی کی اصولی طور پر مخالفت کی، اس کا موقف درست ہے کہ تمام بلدیاتی اداروں کو ترقیاتی کاموں کے حوالے سے پابند کیا جائے کہ وہ کسی سیاسی شخصیت کے سہولت کار بننے سے باز رہیں، اور ترقیاتی اسکیموں کے نام پر کسی سیاسی جماعت کی الیکشن مہم میں بھی استعمال نہ ہوں۔ اس کے ساتھ صوبائی حکومت کے ماتحت تمام محکموں کو بلدیاتی اسکیموں کے اعلانات، عوامی وسائل کے استعمال اور اصول و ضوابط کی خلاف ورزیوں سے روکا جائے۔ جماعت اسلامی کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کے اعلان کے بعد اب تک ہونے والے ترقیاتی کاموں کی تفصیلات طلب کی جائیں، علاوہ ازیں سیاسی مہمات کے لیے حکومتی خزانے کے استعمال کو بھی روکا جائے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے مردم شماری کے پس منظر میں یہ بھی کہا ہے کہ ماضی کی طرح اِس بار بھی اگر کراچی کی مردم شماری میں جعل سازی کرنے اور اہل ِ کراچی کی حق تلفی کی کوشش کی گئی تو ہم بھرپور مزاحمت کریں گے، محلہ کمیٹیاں بناکر مردم شماری کی نگرانی کریں گے اور جعل سازی کو روکیں گے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مردم شماری میں عوام کو ’’ڈیفیکٹو‘‘ اور ’’ڈی جور‘‘ کے الفاظ میں الجھانے کے بجائے جو جہاں رہتا ہے اْسے وہیں شمار کیا جائے، کراچی میں اگر درست مردم شماری کی جائے تو سندھ اسمبلی میں اہل ِ کراچی کی نمائندگی 50فی صد ہوجائے گی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جب گنتی پوری اور ٹھیک ہوگی تو شہر کے وسائل کی تقسیم ٹھیک اور درست ہوگی۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کراچی شہر کا استحکام ملکی معیشت میں استحکام کے مترادف ہے، اگر کراچی ترقی کرے گا تو ملک ترقی کرے گا۔ لیکن اس کے لیے یہاں شہر کی حقیقی قیادت کی ضرورت ہے۔ سیاسی رشوت کے طور پر ایڈمنسٹریٹر کے تقرر سے مسائل کم نہیں ہوں گے بلکہ مزید بڑھیں گے۔