جنرل قمر جاوید باجوہ کا الوداعی خطاب

1057

برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلان کیا ہے کہ اب فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی، کیوں کہ یہ غیر آئینی عمل ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کو غیر آئینی قرار دینے کا اعلان اس وقت کیا ہے جب وہ اپنے منصب سے سبکدوش ہونے جارہے ہیں۔ جی ایچ کیو میں منعقد ہونے والی یوم شہدا کی فوجی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خود ہی خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ یہ ان کا آخری خطاب ہے۔ اس بات کے کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بعض حلقوں میں اس امر کی قیاس آرائی موجود تھی کہ ان کی مدتِ ملازمت میں مزید توسیع ہوسکتی ہے، اس حوالے سے قانون میں تبدیلی کی خبریں یا افواہیں بھی سیاسی فضا میں موجود تھیں۔ اس حوالے سے ان کے دورئہ واشنگٹن کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جارہا تھا۔ واشنگٹن میں بھی انہوں نے ایک تقریب میں اعلان کردیا تھا کہ مدت ختم ہوجانے کے ساتھ ہی وہ اپنے منصب سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ واضح الفاظ میں ان کی جانب سے اعلان کرنے کے باوجود بہت سے حلقوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ دوبارہ توسیع کے بارے میں کوششیں ختم ہوگئی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جی ایچ کیو میں ہونے والی تقریب میں خطاب کا آغاز اس بات سے کیا کہ یہ ان کا آخری خطاب ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر پہلی بار کسی آرمی چیف کے رخصتی خطاب کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کا سیاسی اور اقتصادی بحران ہے اور قومی و سیاسی زندگی میں فوج کے کردار کو اہمیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے برّی فوج کے سربراہ نے رخصت ہوتے ہوئے خاص طور پر اسی موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے اپنے ادارے کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کی قومی تاریخ کے المیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان سنگین معاشی بحران کا شکار ہے، کوئی ایک جماعت ملک کو بحران سے نہیں نکال سکتی، ماضی میں سب نے غلطیاں کی ہیں اس لیے ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے آخری خطاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ فوج سمیت تمام اداروں نے غلطیاں کی ہیں، اس لیے ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ عمل اسی صورت میں آگے بڑھ سکتا ہے کہ ان تمام موضوعات پر کھل کر بات کی جائے، لیکن کیا ایسا ماحول موجود ہے جس میں قومی زندگی کی ناکامیوں کا معروضی تجزیہ کیا جاسکے۔ اس سوال کا جواب نفی میں اس حوالے سے برّی فوج کے سربراہ کا آخری خطاب استدلال کے اعتبار سے کمزور اور مواد کے اعتبار سے تضادات کا مجموعہ تھا۔ سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ فروری میں فوج نے فیصلہ کرلیا ہے کہ آئندہ سیاست میں مداخلت نہیں کی جائے گی، اس لیے سیاسی جماعتیں بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کریں اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں لیکن ان کی تقریر میں ایک سیاسی جماعت پر تنقید غالب تھی۔ جنرل باجوہ نے خاص طور پر اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ سقوط مشرقی پاکستان کے المیے، اس کے اسباب اور ذمے دار کے بارے میں گفتگو کی جائے۔ سقوط مشرقی پاکستان ہماری تاریخ کا ایسا باب ہے جس کے بارے میں گفتگو کرنے سے ہماری ہیت مقتدرہ نے ہمیشہ گریز کیا ہے، اس کے اصل حقائق اور ذمے داروں پر پردہ ڈالا ہے، یہاں تک کہ المیہ مشرقی پاکستان پر قائم حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا، نہ کبھی اس رپورٹ کے مندرجات اور اس کی سفارشات کسی قومی ادارے مثلاً کابینہ یا پارلیمان کے سامنے پیش کی گئیں نہ ہی قوم کو آگاہ کیا گیا کہ محض 25 برس میں یہ واقعہ کیسے ہوگیا۔ جو صوبہ تحریک پاکستان میں پیش قدمی کررہا تھا وہ کیوں الگ ہوگیا اور ہمارے دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ دین اسلام اُمت کو متحد رکھنے کی قوت نہیں رکھتا۔ اسی تصور کو اندرا گاندھی نے زبان دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے دوقومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ جنرل باجوہ نے اپنے ادارے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سقوط مشرقی پاکستان فوجی ناکامی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی۔ انہوں نے یہ وضاحت کرنے کی بھی کوشش کی کہ بھارت کے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کی تعداد 90 ہزار نہیں بلکہ 32 ہزار تھی، باقی سول سرکاری ملازم تھے۔ یہ عذرلنگ ہے اور اس کی بنیاد پر اس المیے سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ سقوط ڈھاکا فوجی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی تو بھی اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ سیاسی ناکامی کا ذمے دار کون تھا۔ سقوط ڈھاکا کے وقت ملک پر فوج حکمراں تھی، فوجی حکومت نے سیاسی مسئلے کا حل نہیں نکالا۔ یہ سیاسی جدوجہد تھی جس کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات منعقد ہوئے تھے، لیکن انتخابات کے نتائج کو کس نے تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کی تمام جماعتیں یہ مطالبہ کررہی تھیں کہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار میں آنے دیا جائے، لیکن اس کے راستے میں رکاوٹ صرف ذوالفقار علی بھٹو نے ڈالی جنہیں صرف صوبہ پنجاب میں اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ صوبہ سندھ میں بھی اکثریت نہیں تھی، ان کا گٹھ جوڑ جنرل یحییٰ خان کے ساتھ سب کو معلوم تھا لیکن فوجی حکمراں جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان سے کامیاب ہونے والی عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا اور بھٹو کے مطالبے پر 23 مارچ کو ڈھاکا میں منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کرکے فوجی آپریشن شروع کردیا۔ یحییٰ خان کا فوجی آپریشن سقوط ڈھاکا کی بنیاد بنا، جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ 32 ہزار فوج کا بھارت کی ڈھائی لاکھ فوج اور 2 لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی کے دہشت گردوں سے مقابلہ تھا۔ سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی مسلمان آبادی علاحدگی پر تیار ہوگئی، تاریخ میں فتح کے ساتھ شکست بھی قوموں کو برداشت کرنی ہوتی ہیں، لیکن مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج کا مقابلہ کرکے شکست کھانے کے بجائے ہتھیار ڈالنے کی ذلت کا داغ مسلمانوں کی تاریخ کے ماتھے پر لگادیا گیا۔ اس لیے محض یہ کہنے سے بات ختم نہیں ہوجاتی کہ سقوط ڈھاکا کا المیہ فوجی ناکامی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی ہے۔ جنرل باجوہ نے اعتراف کیا ہے کہ فوج نے سیاست میں مداخلت کی ہے اور سیاست میں مداخلت آئین کے خلاف ہے، کیا اس بات پر اعتماد کرلیا جائے کہ فروری 2022ء میں فوج نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اب سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ جب کہ حالات و واقعات اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ اگر ایسا ہوگیا ہے تو ان کے جانشین کی تقرری کا مسئلہ سب مسئلوں پر حاوی نہ ہوتا۔ اس سوال کا جواب بھی چاہیے کہ آئین کو بازیچہ اطفال کس نے بنایا۔ سقوط ڈھاکا کے المیے کی پشت پر بھی یہ مسئلہ موجود ہے۔ ایک فوجی آمر جنرل ایوب خان نے سیاسی حکومت کے بنائے گئے آئین کو ختم کیا، اپنا آئین بنوایا، جنرل ایوب خان نے رخصت ہوتے ہوئے آئین کے مطابق اقتدار اسپیکر قومی اسمبلی کو منتقل کرنے کے بجائے فوجی سربراہ کو دعوت دی کہ اقتدار سنبھال لیجیے۔ فوجی جنرل نے آئین توڑ کر نئی دستور ساز اسمبلی کے لیے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا جس نے سیاسی عدم استحکام کی بنیادیں ڈال دیں۔