کیسے بدلیں گے حالات؟

596

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور 13 جماعتی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد 7 ماہ گزر چکے ہیں لیکن سیاسی بحران جاری ہے، جس نے معمول کے امورِ مملکت کو بھی متاثر کیا ہوا ہے۔ اس بحران کی پیچیدگی یہ بھی ہے کہ برَی فوج کے سربراہ کا تقرر بھی قومی سیاسی منظرنامے کی بحث کا مرکزی موضوع بن گیا ہے۔ سیاسی تعطیل کی وجہ سے حقیقی قومی مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ حالات اتنے سنگین ہوگئے ہیں کہ اہل دانش و بصیرت سمیت عوام الناس بھی پاکستان کی 75 برس کی تاریخ کا جائزہ لینے پر مجبور ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ قومی زندگی کا ہر شعبہ ناکامی کا منظر پیش کررہا ہے۔ قومی زندگی اور اس کو چلانے والے ادارے اور شخصیات تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے ہیں۔ سابق حکومت سے تو نجات حاصل کرلی گئی کہ ان پر اعتراض یہ تھا کہ وہ امور مملکت چلانے میں اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے حالات کو مزید ابتر ہونے سے روکنے میں ناکام ہیں۔ اس لیے سابق تجربہ کار حکمرانوں کو واپس اقتدار میں لایا گیا۔ جس مسئلے نے اولین اہمیت حاصل کرلی ہے وہ یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی، آئی ایم ایف سے معاہدہ، گزشتہ سات مہینوں میں روپے کی قیمت جس تیزی سے گری ہے اس نے معاشی زندگی کے ہر شعبے کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ عام آدمی کے لیے زندگی بسر کرنا ناممکن بنادیا گیا ہے۔ اس عرصے میں بڑے دعوے کے ساتھ آنے والے تجربہ کار وزیر خزانہ اسحاق ڈار ابھی تک آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اتنی کمی ہوچکی ہے کہ اب یہ سوال سب کے سامنے آگیا ہے کہ کیا پاکستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ہوجائے گا؟ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے، لیکن یہ قومی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اب تک کی تاریخ یہ ہے کہ قوم نے دفاع پاکستان کے لیے ہر قسم کی تلخیاں برداشت کی ہیں، جبرواستبداد کی حکومت کو بھی گوارا کیا ہے تا کہ قومی سلامتی کی ضمانت حاصل رہے۔ پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ اپنے قیام کے 25 برس بعد مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا۔ پاکستان کا قیام برعظیم جنوبی ایشیا میں ہندومسلم کش مکش کا نتیجہ اور اس خطے کے مسلمانوں کے تحفظ کا ذریعہ تھا، لیکن 25 برس ہی میں دو ٹکڑے کردیا گیا، باقی ماندہ مغربی پاکستان کے تحفظ کے لیے اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تحفہ عطا کیا۔ آج ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وجہ سے پاکستان جوہری طاقت ہے۔ جوہری پروگرام پاکستان کے تحفظ کی واحد ضمانت ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں نے جس میں ہر شعبہ حیات کے لوگ شامل ہیں، چاہے سیاسی قیادت ہو یا خاکی و سفید افسر شاہی، سب نے پاکستان کو اس مقام پر پہنچادیا ہے جس نے جوہری پروگرام بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ سوال یہ کیا جارہا ہے کہ کیا ملک کو دیوالیہ قرار دینے سے بچنے کے لیے جوہری پروگرام سے دست برداری تو اختیار نہیں کرنی پڑے گی؟ ایک طرف سیاست دانوں اور افسر شاہی کے بدعنوانی اور لوٹ مار کے اسکینڈل کو دیکھتے ہیں دوسری طرف پاکستان کے خالی خزانے اور عوام کے افلاس پر نظرجاتی ہے تو یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ ملک پر کیسے کیسے لوگوں نے حکمرانی کی ہے، جنہوں نے مل کر ایسا نظام بنادیا ہے کہ کسی طاقتور شخص کا احتساب نہیں ہوسکتا، اس نظام نے سماجی زندگی کو بھی تباہ کردیا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مجرموں کی قوم ہے۔ بالائی سطح پر مختلف مافیائوں کی حکمرانی ہے بس اس بات کا مقابلہ ہے کہ کون سی مافیا زیادہ طاقتور ہے۔ توانائی مافیا، لینڈ مافیا، شوگر مافیا، سیمنٹ مافیا، سرمایہ دار، جاگیردار، افسر شاہی کون زیادہ ذمے دار ہے، اس کا نہ فیصلہ ہوسکتا ہے اور نا ہی کوئی یہ بتانے والا ہے کہ اصلاح کا نقطہ آغاز کہاں سے ہوگا۔ اگر اس کا جواب مل بھی جائے تو یہ طاقتور طبقہ کسی گروہ کو اصلاح کے لیے پہلا قدم اٹھانے کی اجازت بھی دے گا۔ کیا اس طبقے کی حقیقی مزاحمت کرنے والا ایسا طبقہ طاقتور اور موثر ہوسکتا ہے جس کے بارے میں یہ ضمانت دی جاسکے کہ یہ شخص اور گروہ پاک دامن ہے، اس کے دامن پر لوٹ مار، بدعنوانی، مفاد پرستی، ہوس اقتدار و دولت کا داغ نہیں ہے۔