پتلی تماشا پھر شروع

479

پاکستانی قوم خوش ہے اسے اپنے اپنے لیڈر پھر اچھے لگنے لگے ہیں۔ نواز و شہباز کے چاہنے والے ان کے پیچھے ہیں اور عمران خان کے چاہنے والے ان کے ساتھ۔ بھٹو کے زندہ ہونے کا یقین رکھنے والے پی پی پی کے ساتھ… لیکن کیا یہ سب جن چیزوں پر باہم متحارب ہیں یہ پاکستان کے مسائل ہیں یہ قوم کے مسائل ہیں؟۔ ان سیاستدانوں کی صلاحیت اور پہنچ کا یہ عالم ہے کہ جو آدمی بائیس سال تک یہ کہتا رہا کہ نواز اور زرداری چور ہیں آج وہ اعتراف کررہا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ نے بتایا تھا۔ پھر چار سال کی حکمرانی میں وہ ان چوروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے کیوں کہ اسی اسٹیبلشمنٹ نے ان دونوں کو مسلط کرنے کا فیصلہ کیا تو بھی ان دونوں کا کچھ نہیں بگاڑا۔ اب ایک بار پھر قوم کو بے وقوف بنانے کا کھیل جاری ہے۔ ایک بڑھک ادھر سے اور جوابی بڑھک ادھر سے لگائی جارہی ہے اور عوام مزے لے رہے ہیں، لیکن مزے لینے کے بعد جب جیبوں کی طرف ہاتھ جائے گا تو صاف ہوچکی ہوں گی۔ بجلی، پٹرول، گیس، خوراک، دوائیں، تعلیم، سڑکیں، پارک، سب کچھ ان کی پہنچ سے مزید دور ہوگا۔ چند ہزار لوگوں کے اس کھیل میں سارا نقصان قوم کا ہورہا ہے۔ اور ساتھ ہی ان کی زبانیں بھی خراب ہوتی جارہی ہیں۔ پہلے تو دونوں طرف سے بچہ جمہورا رکھے ہوئے تھے لیکن اب دونوں جانب کے رہنما براہ راست جملے بازیوں میں مصروف ہیں۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ چور کا الزام لگانے والا مذاکرات کا پیغام بھیج رہا ہے۔ اور عمران خان جواب دے رہے ہیں کہ پیغام کیوں بھجوائوں تمہارے پاس ہے کیا۔ نواز، زرداری چور ہیں مجھے اسٹیبلشمنٹ نے بتایا اور معاف کرنا اگر اداروں نے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا تو ہم ساتھ نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے نیوٹرل کو جانور کہنے کا بدلہ چکا دیا، کہنے لگے کہ عمران نیازی نے فوج پر تابڑ توڑ حملے کیے جس نے اسے پالا اسی کے خلاف زہر اگلا، جانور بھی ایسا نہیں کرتا… لیکن ایسا تو اس ادارے کے پالے ہوئے ہر لیڈر نے کیا۔ الطاف حسین، زرداری اور شریف سب ہی نے فوج کو نشانہ بنایا۔ اصل بات تو یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو لیڈر کیوں بنایا جاتا ہے جو اس طرح ملک کے خلاف بیان بازی شروع کردیں۔ اس جانب امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے توجہ دلائی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ گیٹ نمبر چار کے ملنگوں کو ہی حکمرانی ملتی ہے۔ یہ تمام پارٹیاں 75 برس سے حکمرانی کررہی ہیں، کبھی باریاں لگاتی ہیں، کبھی تبدیلی کے نام پر پارٹی بدلی جاتی ہے اور کبھی دھاندلی کرکے جیتایا جاتا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لیے کہا اور حساب مانگا ہے کہ یہ تمام پارٹیاں جو اقتدار کے لیے لڑ رہی ہیں، بتائیں کہ انہوں نے قوم کو کیا دیا۔ مہنگائی، بیروزگاری، بے امنی، اقتصادی تباہی سب بڑھ رہے ہیں۔ بنگلادیش پاکستان سے آگے نکل گیا، بھارت کو برا کہا جاتا ہے اس کی قیادت پاکستان کو سالم نہیں دیکھنا چاہتی اس سے ہر معاملے میں پیچھے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمران کیا کررہے ہیں، وہ تو خود ملک توڑنے والے اقدامات کررہے ہیں۔ اس وقت ملک میں پتلی تماشا پھر شروع کردیا گیا ہے۔ ایک روز مذاکرات کی خبر آتی ہے دوسرے روز مذاکرات کیوں کریں کا نعرہ لگتا ہے۔ لیکن پہلے روز کے بیانات میں مطالبات اور ان کا مسترد کیا جانا دونوں موجود تھے۔ یہ کام پہلی مرتبہ نہیں ہورہا، 1977ء میں بھی ہوا۔ 1988ء میں بھی ہوا۔ 1999ء میں بھی اور اس کے بعد بار بار ہوا۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہزاروں کی تعداد میں مہرے ہیں جنہیں پہلے وہ دو پارٹیوں میں ڈال اور نکال کر استعمال کرتی تھی اب اس کے پاس تین پارٹیاں ہیں۔ اگر ان پارٹیوں کا جائزہ لیا جائے تو تین پارٹیوں کے ارکان اسمبلی ہر پارٹی کی سیر کرچکے ہیں اس کے علاوہ گنتی پوری کرنے حکومت سازی میں مشکل پیدا کرنے یا مشکل آسان کرنے کے لیے، ایم کیو ایم، اے این پی، ٹی ایل پی وغیرہ بنادی گئی ہیں۔ یہ کام (ق) لیگ باپ وغیرہ سے بھی لیا جاتا ہے۔ نئے پتلی تماشے میں پتلیاں بھی پرانی ہیں اور تماشا دکھانے والا بھی اور عوام بھی پاکستانی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان اور حکمران یہ تماشا دکھانے میں مصروف ہیں اور دنیا کیا سے کیا ہوگئی۔ جب تک ملک کے حکمرانوں کا احتساب سرکاری اداروں کے ہاتھ میں رہے گا یہی کھیل جاری رہے گا۔ یہ احتساب عوام کو کرنا چاہیے۔ انہیں یہ اختیار نہیں دیا جاتا تو وہ چھین لیں۔ جس روز لوگ خود اپنا اختیار چھین لیں گے اسی روز یہ پتلی تماشے ختم ہوں گے۔ جس جس کو اسٹیبلشمنٹ نے جو کچھ بھی بتایا وہ بعد میں غلط ثابت ہوا یا اسے سچ ثابت نہیں کیا جاسکا، اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کا کچھ بھی نہیں بگڑتا زیادہ گرم ہونے سے کسی چمچے کو جھلسنا پڑتا ہے اور نقصان سارا ملک و قوم کا ہوتا ہے۔