امریکا کیوں ہارتا ہے؟

555

امریکی دانش ور اس بات پر متفق ہیں کہ امریکا افغانستان، شام، عراق، لیبیا اور یمن میں دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہا۔ افغانستان میں طالبان کی جنگ میں فتح اور اقتدار میں واپسی امریکی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس سوال کا جواب امریکی تھنک ٹینک خاص محنت کے باوجود تلاش نہیں کرپائے کہ دنیا کا طاقتور ترین ملک جس کے پاس جدید ترین فوج، ٹیکنالوجی اور جدید ترین فضائیہ ہے وہ طالبان کو کیوں شکست نہ دے پایا۔ وہ حیران ہیں کہ امریکا جنگیں جیت کیوں نہیں پاتا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکا نے بے شمار جنگوں میں حصہ لیا لیکن کسی بھی جنگ میں فتح حاصل نہیں کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یعنی 1945ء کے بعد سے امریکا نے پانچ بڑی جنگیں لڑی ہیں جن میں کوریا، ویت نام، خلیجی جنگ (کویت اور عراق) عراق اور افغانستان شامل ہیں۔ کچھ ان سے چھوٹی صومالیہ، یمن اور لیبیا کی جنگیں ہیں۔ لیکن مسلح تنازعات تو سیکڑوں ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد 2001ء تک دنیا میں 248 مسلح جنگیں یا تنازعات ہوئے جن میں سے 201 کا آغاز امریکا نے کیا۔ دسمبر 2011 میں امریکا نے عراق کے ساتھ جنگ کو باضابطہ طور پر ختم کیا۔ لیکن وہاں بحالی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ افغانستان کے ساتھ ہونے والی جنگ امریکا کی تاریخ کی سب سے طویل اور سب سے مہنگی جنگ تھی جس کا خاتمہ 30 اگست 2021ء میں اس وقت ہوا جب کابل سے آخری امریکی فوجیوں کا انخلاہوا۔ ان ممالک میں پرانی حکومتوں کو آسانی سے ختم کردیا گیا لیکن جنگ زدہ ممالک کی تعمیر نو نہیں کی گئی۔ جنگیں مسلط کرتے ہوئے امریکا نے عام لوگوں کا نہیں سوچا کہ ان کا کیا ہوگا۔ ان جنگوں میں مرنے والے بے گناہ شہریوں کا کیا قصور تھا؟
افغانستان کے علاوہ دیگر ممالک کے شہری خوشحال اور پُرامن زندگی گزار رہے تھے افغانستان میں بھی یہ مثال ساری دنیا کے لیے حیران کن تھی کہ طالبان نے بغیر کسی ٹیکنالوجی کے روس سے جنگ کے بعد بے حال افغانستان میں کیسے امن قائم کیا۔ لیکن اگر کوئی سبق نہ سیکھنا چاہیے تو اُسے ہر گز کچھ سکھایا نہیں جاسکتا۔ امریکا ان میں شامل ہے۔ شکست ایک علٰیحدہ بات ہے امریکی فوجی بن غازی صومالیہ، سائیکون (ویت نام) اور کابل سے شرمناک بے بسی سے واپس گئے۔ موغا دیشو میں نو امریکی فوجیوں کو سڑک پر گھسیٹنا امریکی حکومت بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھول سکتی پھر سامنے وہ ممالک ہیں جو ٹیکنالوجی اور فوجی طاقت میں تقریباً نل ہی کہے جائیں گے۔ افغانستان تو ایک سوئی بنانے پر بھی قادر نہیں لیکن وہ کامیاب ٹھیرے۔ اس کی وجہ مختصر ترین بتائی جائے تو یہ ہوگی کہ وہ فوجی طاقت میں کمزور لیکن حوصلہ مندی اور عزم میں بھرپور تھے۔ امریکا میں اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ افغان جنگ ناکام کہی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ کچھ افراد کے لیے زبردست منافعے کے مواقع پیدا کرنے کا سبب بنی۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی پروفیسر لنڈا ہلمز بتاتی ہیں کہ اس جنگ میں امریکی فوج کے اپنے فوجی اور وسائل بہت کم تھے۔ یہ دفاعی کنٹریکٹرز کے ذریعے لڑی گئی۔ امریکا اور دیگر ممالک کی سو سے زیادہ کمپنیوں کو ٹھیکے دیے گئے ان میں سے چند مہینوں نے اربوں ڈالر کمائے لیکن باقی بھی نقصان میں نہیں رہیں۔ البتہ نفع کی شرح میں خاصا فرق رہا۔ اس سے وجہ سامنے آجاتی ہے ٹھیکے کے ذریعے کرایے کے فوجیوں اور بہادر حوصلہ منہ اور پرعزم اپنے قوم و ملک کے لیے لڑنے والوں میں یہ معاملات تو ایسے ہی رہیں گے۔ جنگیں مادی طاقت کے بل پر نہ لڑی جاتی ہیں۔ نہ فتح کی ضمانت دے سکتی ہیں۔ سو امریکی جنگوں کا انجام ناکامی رہا البتہ چند کمپنیوں نے اس سے خوب فائدہ سمیٹا۔ صدر جارج بش کی تقریر لکھنے والا ’’ڈیوڈ فروم‘‘ جس نے عراق میں امریکی جنگ کی حمایت کی تھی وہ اپنی رائے بدل چکا ہے۔ کہتا ہے ’’ہم نے سوچا تھا کہ ہم عراق کو بہتر بنانے کے لیے ہیں لیکن ہم نہیں تھے ہم لاعلم اور متکبر تھے اور ہم انسانی مصائب کے ذمے دار بن گئے جو کسی کے لیے اچھا نہ تھا نہ امریکیوں کے لیے اور نہ ہی ان کے لیے اور نہ ہی اس علاقے کے لیے‘‘۔ کاش کہ سبق سیکھا جائے کم از کم اتنا ہی کہ جنگیں شروع کرنے کے بجائے ختم کرنا زیادہ منتقل ہوتا ہے۔
افغانستان میں امریکا شکست کھا کر پسپا ہوچکا لیکن طالبان کی اقتدار میں واپسی، روس اور چین کے درمیان ہم آہنگی کی کیفیت اور ان کی افغانستان میں دلچسپی امریکا کو اس خطے میں متوجہ اور مصروف رکھے گی۔ اس کو پاکستان میں محسوس کیا جائے گا اور کیا جارہا ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور سوات کی صورت حال اس کی مثال ہیں۔