…۔صحافی اور صحافت نشانے پر

522

پاکستان سیاسی، سماجی، معاشی طور پر بدترین صورت حال سے دو چار ہے، جہاں سیاسی کارکن محفوظ ہیں اور نہ ہی صحافی۔ جو لوگوں کی خبر دیتا ہے، اْس کا خود خبر بن جانا صرف ایک معمول کا واقع بن گیا ہے، ہمارا ملک بدقسمتی سے صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے، جس کا اندازہ میڈیا کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ امپیونٹی رپورٹ 2022 سے کیا جاسکتا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 2012 سے 2022 کے درمیان صحافیوں کے قتل کے 96 فی صد واقعات میں ملزمان کو کسی بھی قسم کی سزا نہیں ملی۔ اس صورت حال کو کسی بھی جمہوری ملک کی ناکامی اور اس کی سیاست کی ناکامی کی بدترین علامت کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے، کیونکہ ایک تو بڑی تعداد میں صحافی نشانہ بن رہے ہیں اور دوسری طرف ان کے ملزمان کو سزا بھی نہیں مل رہی ہے۔ ڈان اخبار میں شائع رپورٹ ’’قتل کا میدان‘‘ پاکستان میں مقتول صحافیوں کے لیے کوئی انصاف نہیں۔ کے عنوان سے صحافیوں کے خلاف جرائم پر استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن سے پہلے جاری کی گئی ہے جو ہر سال 2 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2012 سے 2022 کے درمیان 53 پاکستانی صحافیوں کو قتل کیا گیا لیکن ان 53 واقعات میں سے صرف 2 کے مجرموں کو سزا سنائی گئی۔ رپورٹ میں بات بھی سامنے آئی ہے کہ کرمنل جسٹس سسٹم مقتول صحافیوں اور ان کے سوگوار خاندانوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ صحافیوں اور میڈیا کے خلاف جرائم میں سزا نہ ملنا اور استثنیٰ بدترین صورتحال اختیار کر رہا ہے۔ صحافی رہنما کھل کر کہہ رہے ہیں کہ دھمکیوں کے شکار صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل اس بات کا مظہر ہے کہ صحافیوں اور آزادی صحافت کے خلاف ’’قوت‘‘ روزانہ کی بنیاد پر مضبوط ہو رہی ہے، جب کہ ہم نے گزشتہ دنوں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا شور بھی بہت اٹھتے دیکھا اور قانون سازی ہوئی بھی ہے، لیکن مارنے والے اتنے بے خوف اور طاقت ور ہیں کہ ا نہیں ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے خصوصی قانون سازی کی گئی لیکن ہم نے دیکھا کہ اس کے باجود صحافی یہاں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ کیونکہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ہیں 2012 سے 2022 کے درمیان اپنے صحافتی فرائض ادا کرنے کی وجہ سے قتل کیے گئے 53 صحافیوں میں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں سندھ میں ہوئی ہیں، جہاں 16 یا مجموعی تعداد میں سے 30 فی صد صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا، اسی طرح پنجاب میں 14 یا مجموعی تعداد کے 26 فی صد میڈیا سے وابستہ افراد کو ہدف بنایا گیا۔ اسی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس دوران نامعلوم افراد پاکستان میں صحافیوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوئے، جب کہ اس زیر جائزہ مدت کے دوران 28 فی صد صحافیوں کو نامعلوم ملزمان کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ ارشد شریف کی ہلاکت کے بعد جو معلومات سامنے آئی ہیں ان سے بھی یہی لگتا ہے ان کو نشانہ بنانے والے گروہ کا تانا بانا بھی پاکستان ہی سے ہے، بد قسمتی سے ہمارے یہاں صرف صحافی ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی کارکن سمیت ہر آواز اُٹھانے والا شخص نشانے پر ہے، اس کا علاج صرف ایک ہی ہے کہ وطن عزیز میں ایک بڑی تحریک پیدا کی جائے اور پورے نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کی جائے ورنہ اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں آنے والی تبدیلوں سے کچھ بدلنے والا نہیں اور نتیجہ سیاست اور صحافت کی رسوائی اور تباہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔