سیاسی عدم استحکام اور مکالمے کی ضرورت

305

پاکستان کی قومی سیاست قومی مسائل سے لاتعلق ہو چکی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت جس حال میں پہنچ گئی ہے اسے وہاں سے کیسے نکالا جائے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ایسا معاہدہ کیسے کیا جائے جس کے نتیجے میں پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کے شہریوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر کی بحالی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ کسی بھی طبقے کے پاس کوئی تجویز نہیں ہے، معیشت کے استحکام کے مصنوعی اور غیر حقیقی اشاریے بھی کوئی اچھی تصویر نہیں دکھا رہے ہیں سیاسی عدم استحکام کے نام پر اسٹاک ایکسچینج میں بدترین گراوٹ نظر آرہی ہے۔ معاشی عدم استحکام قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بنتا نظر آرہا ہے۔ وقت سے پہلے حکومتوں کی تبدیلی اور اس میں غیر سیاسی اداروں کی غیر حکیمانہ مداخلت نے پاکستان میں جمہوری نظام اور نمائندہ سیاسی طاقت کو بھی غیر موثر کیا ہے۔ سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے بالآخر حکومت کے خلاف جمعے سے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اسمبلی میں شکست کے بعد عوامی رابطے پر نکل گئے ہیں، حکومت بھی ان کی تحریک سے خوفزدہ محسوس ہو رہی ہے۔ اسی کے ساتھ موجودہ حکومت کے سخت ناقد اور ممتاز اینکر پرسن ارشد شریف کے کینیا میں پراسرار اور سفاکانہ قتل نے بھی قومی سیاست میں ہیجان پیدا کر دیا ہے۔ یہ بات کہی جارہی ہے کہ حکومتی جبر کی وجہ سے انہیں اچانک ملک چھوڑنا پڑا، اور وہ دیار غیر میں قتل بھی ہو گئے۔ ارشد شریف کے قتل کے فوری بعد عمران خان نے اپنے مجوزہ لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ نہ جانے کیوں سیاسی احتجاج سے حکومت خوف زدہ ہے۔ حکومت عمران خان کے مجوزہ لانگ مارچ کو رکوانے کی غرض سے عدالت عظمیٰ میں پہنچ گئی، لیکن عدالت عظمیٰ نے حکومت کی درخواست مسترد کر دی۔ حکومت نے عدالت ِ عظمیٰ سے عمران خان کے نئے لانگ مارچ پر حکم امتناع جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ جسٹس عطا عمر بندیال نے اس درخواست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی ہے، قانون کے مطابق احتجاج سب کا حق ہے۔ حفاظتی اقدامات کرنا حکومت کا کام ہے وہ کرے۔ عمران خان کے احتجاج سے حکومت اتنی خوف زدہ ہے کہ اس نے دارالحکومت کو کنٹینر کا شہر بنا دیا ہے۔ معروف تفتیشی صحافی اور ٹی وی اینکر ارشد شریف کے قتل نے پاکستانی سیاست و سماج میں تنائو اور ہیجان میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ریاستی ادارے اور حکومت اعصابی تنائو کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں، اسی کیفیت نے حکومت کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا ہے۔ اس کے باوجود یہ بات سب کو معلوم ہے کہ محض احتجاجی مظاہروں سے حکومت تبدیل نہیں ہوتی اس کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ سیاسی تنائو کے باوجود وزیراعظم سعودی عرب کے اہم دورے پر چلے گئے ہیں اور ان کے دو روزہ دورہ چین کے نظام الاوقات کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ احتجاجی تحریکوں کے باوجود پس پردہ مذاکرات کی خبریں بھی موجود ہیں اور ہر اہم دائرے سے اس کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ سیاسی جدوجہد میں سب سے زیادہ اہمیت مذاکرات اور مکالمے کو حاصل ہے۔ اس لیے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سیاسی گروہوں، جماعتوں اور رہنمائوں کے درمیان مکالمہ جاری رہے۔ اگر ہمارے سیاسی قائدین نظریات کی بنیاد پر سیاست کریں تو مکالمہ ممکن ہے۔ لیکن اگر انہوں نے اس جنگ کو مفادات اور حکومتی طاقت کا ذریعہ بنا لیا ہے تو اس سے انتشار ہی پیدا ہو گا۔ کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مار کی داستانیں اسی بات کی شہادت دے رہی ہیں کہ کسی بھی گروہ اور طبقے کی سیاست نظریے، اصول اور حق و باطل میں تفریق کی اقدار کی نمائندہ نہیں۔ پاکستان کی سیاست میں بہت خون بہا ہے، یہ خون کیا حق و انصاف کے راستے میں بہا ہے۔ آخر کون ہے جو ایسے سیاسی مکالمے کا آغاز کرے جس کے نتیجے میں امور حکمرانی عوام کو عدل و انصاف اور معاشی خوش حالی عطا کرے حکومت اور حزب اختلاف دونوں احتجاج کی صورت میں بدامنی کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کی ذمے داری دونوں فریقوں پر عاید ہوتی ہے حکومت طاقت کے استعمال سے گریز کرے اور ملک کو درپیش حقیقی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر سیاسی مکالمے کی ضرورت ہے۔