کراچی کے دشمن شہری اور معصوم حکمران (آخری حصہ)

548

(ان سطور کی اشاعت سے قبل حسب توقع بلدیاتی انتخابات سے فرار کا فیصلہ ہوگیا)
کراچی میں جوہر چورنگی پر فلائی اوور اور انڈر پاس کے منصوبے پر کام شروع کردیا گیا لیکن کوئی متبادل راستہ تیار نہیں کیا۔ ٹریفک کو اندرونی گلیوں کی طرف موڑ دیا گیا۔ اس پر اطمینان نہیں ہوا تو ٹریفک کو مزید تنگ کرنے کے لیے دارالصحت اسپتال کے پیچھے اچانک سڑک کھود کر گٹر لائن ڈالنا شروع کردی جو دس روز گزرنے تک نہیں بن سکی۔ یہ واحد سڑک تھی جہاں سے پروفیسر غفور روڈ کا ٹریفک گزارا جارہا تھا۔ دارالصحت کے سامنے تو دکانیں پتھارے اور پارکنگ پہلے ہی تھی اس پر وہاں سے بھی راستے بند کرکے بہت تنگ جگہ چھوڑی گئی۔ منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے لیکن سمامہ شاپنگ سینٹر سے جوہر چورنگی جانے والی سڑک پر جگہ جگہ کنکریٹ کے بیریئر رکھ کر سڑک تنگ کردی گئی اور وہاں روشنی کا کوئی انتظام نہیں، کئی موٹر سائیکل والے حادثات کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس سڑک پر بھی اچانک دن کے اوقات میں اور راتوں کو ٹریفک بند کرکے پل کے لیے بیم بنائے جارہے ہیں۔ یقینا بڑے منصوبوں کی تعمیر کے دوران لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے لیکن متبادل راستے تعمیر کیے بغیر بڑے منصوبے شروع کرنا کہاں کا طریقہ ہے۔ سعید غنی صاحب کی گفتگو کا جواب انہیں الیکشن میں مل جاتا لیکن حافظ نعیم الرحمن نے ان کو کافی و شافی جواب دے دیا۔ انہوں نے الٹا سوال کیا کہ سعید غنی صاحب کراچی کے لوگ تو سڑکیں توڑ رہے تھے، گٹر بند کررہے تھے، پانی کی لائنیں توڑ رہے تھے لیکن آپ کیا کررہے تھے۔ آپ کی حکومت نے تیرہ چودہ برس میں کراچی میں پانی کے اتنے منصوبے بنادیے کہ اب لوگوں کو ٹینکر کے بجائے نلکوں کے ذریعے پانی ملتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا زبردست نظام بنادیا ہے کہ لوگ اب منی بسوں کی چھتوں پر نہیں ائرکنڈیشنڈ بسوں میں سفر کررہے ہیں اور سڑکیں تو شیشے کی طرح چمک رہی ہیں۔ حافظ نعیم نے صوبائی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ سب کچھ چھوڑیں سعید غنی صاحب آپ نے اپنے حلقہ انتخاب میں الیکشن سے قبل جو اربوں روپے لگائے تھے ان کا حساب تو دیں۔ ان کاموں کا معیار بھی اس قدر گھٹیا تھا کہ سڑکیں، گٹر لائنیں سب ٹوٹ گئیں، کیا یہ بھی جماعت اسلامی نے توڑ دی تھیں۔ حافظ نعیم کی گرفت کے باوجود اصلاح تو بالکل نہیں ہوئی۔ بلکہ الیکشن ملتوی کردیے۔ یہ حکومت اور الیکشن کمیشن آدھے کراچی میں بھی الیکشن نہیں کراسکتے تو انہیں اپنے اپنے مناصب اور ذمے داریوں سے علاحدہ ہوجانا چاہیے۔ کراچی کا بڑا حصہ تو کنٹونمنٹ کے نام پر پہلے ہی الیکشن بھگتا چکا ہے۔ اگر اتنا سا الیکشن نہیں کرایا جاسکتا تو یہ حکمران کون سا کام کرسکیں گے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ الیکشن سے گھبراتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن ان کی ضرورت تھے اور بلدیاتی الیکشن ان کی سیاست کا خاتمہ کرتے۔
یہ بات بھی محل نظر رہنی چاہیے کہ کراچی کے کتنے علاقوں کو پانچ سات ہزار ووٹ پر یوسی کا درجہ دیا گیا ہے۔ ابھی سے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو الیکشن سے بھاگ گئے ہیں انہوں نے الیکشن چرانے کی بھی پوری تیاری کررکھی تھی۔ ان کے بارے میں ابھی سے الیکشن کمیشن اور عوام کو آگاہ کیا جائے تا کہ بعد میں یہ نہ کہا جائے کہ ہماری کامیابی کی وجہ سے ایسے الزامات لگ رہے ہیں۔ عوام کو حساب لینا ہوگا لیکن اس کے لیے انہیں آگہی ہونا بہت ضروری ہے۔ کراچی کو کس نے تعمیر کیا اور کس نے لوٹا اور کس نے تباہ کیا لوگوںکو ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کراچی کو بچانا ہے۔ کراچی کو بچانا ملک کو بچانا ہے۔ یہ شہر ملک اور صوبے کا پہیہ چلاتا ہے اور یہاں گاڑی تو کجا گدھا گاڑی کا پہیہ بھی نہیں چل پاتا۔
صرف دو تین علاقوں کا ذکر دہرا دیں تو قارئین کے سامنے کراچی کا پورا نقشہ آجائے گا۔ ذرا سرجانی سے شہر کے مرکز کی طرف چلیں ایک راستہ پیپلز چورنگی سے واٹر پمپ تک آتا ہے اس پر سڑک کے بجائے مٹی ڈال دی گئی ہے، مہینے بھر سے اس سڑک کو کھودا ہوا تھا لیکن انتخابات سر پر آتے نظر آئے تو مٹی اور پتھر ڈال دیا گیا ہے۔ اس طرح سرجانی کی فور کے چورنگی سے اللہ والی چورنگی تک دوسری طرف فور کے سے کے ڈی اے فلیٹ تک سڑک کھودی ہوئی تھی، اگر آپ بلدیہ ٹائون سے شون چورنگی تک کا سفر کریں تو شون چورنگی کے قریب سڑک کھدی پڑی ہے۔ ٹاور کے پل سے قبل ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے سڑک کھدی ہوئی ہے، درمیان میں ’’ترقیاتی کام‘‘ کے لیے سڑک تنگ کردی گئی ہے اور ایک ماہ سے یہ ترقیاتی کام جاری ہے۔ ایم ٹی خان روڈ پر بیچ لگژری کی طرف مڑنے والی سڑک کھودی گئی ہے اور ٹریفک رانگ سائڈ گزارا جارہا ہے۔ اس طرح کورنگی روڈ پر ایف ٹی سی پل چڑھتے اترتے وقت سڑک کھدی ہوئی ہے۔ ڈسٹرکٹ سینٹرل میں گولیمار سے رضویہ لسبیلہ تک راستہ خراب ہے۔ جگہ جگہ بلیڈ لگا کر سڑک میں کٹائی کردی گئی ہے جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔ ضلع جنوبی اور شرقی کے سنگم پر بلوچ کالونی کے پل سے نیچے اترتے ہوئے شارع فیصل کھدی ہوئی ہے۔ پل سے اترتے ہی اچانک کھدی ہوئی سڑک آنے سے گاڑیوں موٹر سائیکلوں کو جھٹکے لگتے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان تمام مذکورہ مقامات اور شہر میں ٹریفک پولیس کی رپورٹ کے مطابق سو سے زائد اہم سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں انہیں کس نے کھودا ہے لیکن پھر بھی سعید غنی صاحب کو بتانا چاہیے کہ یہ سب سڑکیں حکومتی ادواروں نے ’’ترقیاتی کام‘‘ کے لیے کھودی ہیں اور یہ ’’ترقیاتی کام‘‘ شہر میں تیرہ چودہ برس سے زبردست طریقے سے بلکہ زبردستی جاری ہے۔ سعید غنی صاحب بلاوجہ وسیم بادامی کو یاد دلا گئے جو اکثر چبھتا ہوا سوال کرکے کہتے تھے کہ میرا معصومانہ سوال ہے کہ یہ کیوں ہورہا ہے۔ تو سعید غنی بھی معصومانہ الزام لگا گئے کہ شہری شہر کی سڑکوں کو توڑ رہے ہیں اور حکمراں معصوم ہیں۔