کراچی کے دشمن شہری اور معصوم حکمران

412

حکومت سندھ نے بلدیاتی انتخابات سے بچنے کے تمام حیلے ناکام ہوتے دیکھ کر عجلت میں پورے شہر میں ترقیاتی کام بیک وقت شروع کردیے ہیں جس کی وجہ سے شہر بھر کا ٹریفک نظام درہم برہم ہوگیا ہے اور شہریوں کو شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ بہت سے منصوبے جو بوجوہ تاخیر کا شکار تھے انہیں بھی عجلت میں شروع کردیا گیا ہے اس کی وجہ سے سارا نظام تلپٹ ہو گیا ہے۔ جولائی تا ستمبر کے اوائل ہونے والی بارش سے تباہ حال سڑکیں اب تک ٹوٹی پھوٹی پڑی تھیں لیکن الیکشن کمیشن کے دو ٹوک جواب کے فوراً بعد استعفا دینے والے ایڈمنسٹریٹر کراچی دوبارہ فعال ہوگئے اور کراچی کے لیے فنڈز بھی جاری کردیے۔ لیکن جس قسم کا کام ہورہا ہے وہ نہایت غیر معیاری ہے۔ اور خدشہ ہے کہ بعض سڑکیں تو دو ماہ بھی نہیں گزار سکیں گی۔ آئندہ مہینوں میں موسم سرما کی تیز بارش کا خدشہ ہے جس میں یہ سڑکیں پھر بہہ جائیں گی۔ بلدیہ کراچی کے فنڈز کے اجرا اور ان کے استعمال کی نگرانی کوئی منتخب نمائندہ نہیں کررہا ہے جس کی وجہ سے فنڈز کے درست استعمال کو یقینی بنانے اور معیار کا جائزہ لینے کا بھی کوئی نظام نہیں ہے۔ واضح رہے کہ بلدیہ کراچی نے بارش کے فوراً بعد 80 کروڑ روپے جاری کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ان 80 کروڑ سے کون سی سڑکیں بنیں اور کون سے علاقے صاف ہوسکے۔ اس کی تفصیل دینے سے بلدیہ قاصر تھی اس کے بعد ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے کراچی کی سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لیے 12 ارب روپے جاری کرنے کا اعلان کیا اور اس اعلان کے بیس دن بعد تک بھی شہر کی سڑکوں کی حالت نہیں بدل سکی تھی۔ جن سڑکوں کی ہنگامی بنیادوں پر مرمت کی توقع تھی ان میں یونیورسٹی روڈ کا پرانی سبزی منڈی کی طرف جانے والا ٹریک اور صفورا کی طرف جانے والے ٹریک پر نیپا ہائیڈرنٹ کے قریب سے میٹرو شاپنگ سینٹر کے پل تک کا ٹریک بنایا جانا تھا۔ لیکن ان مقامات پر پہلے صرف مٹی ڈال دی گئی لیکن وہ ہلکی بارش اور بھاری گٹر بہائو کا شکار ہوگئی۔ چناں چہ اس سے بچنے کا حل یہ نکالا کہ ’’ہوشیار ترقیاتی کام جاری ہے‘‘ کا بورڈ لگا دیا جائے۔ جگہ جگہ یہ بورڈ لگادیے گئے اس دوران الیکشن سے فرار کی کوشش بھی جاری رہیں لیکن یہ کوشش ناکام ہوتے دیکھ کر کچھ کام کرنے ہی پڑے۔ چناں چہ مٹی کی جگہ پتھر (کرش) ڈال کر سڑک بنانے کے کام کا آغاز کردیا گیا لیکن اس میں بھی انتخابات کے التوا کی خواہش باقی تھی جو پوری نہ ہوسکی اور مجبوراً پورے شہر میں سڑکوں کی مرمت کا کام شروع ہوگیا۔ پتا نہیں سڑکوں کی مرمت پہلے ہوگی یا انتخابات سے بھاگنے کا کام پہلے ہوگا۔
ان سڑکوں کے معیار کا پردہ ایک ٹی وی چینل سمانے چاک کردیا اس کے رپورٹر نے نئی بنی ہوئی سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر کنارے کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اسے اس طرح اٹھالیا جیسے مٹی کے ٹکڑے جمے ہوئے تھے اور ان کو دبا کر چورا کردیا۔ اگر اس معیار کا کام 12 ارب روپے میں کرنا ہے تو صرف دو ماہ رک جائیں کراچی کے شہری جن گڑھوں پر کئی برس سے سفر کررہے تھے دو ماہ اور صبر کرلیں گے۔ منتخب بلدیہ کو آنے دیں اور یہ 80 کروڑ اور 12 ارب روپے اس کے حوالے کردیں۔ یہ منتخب کونسل جماعت اسلامی کی آئے، پیپلز پارٹی کی یا تحریک انصاف کی، منتخب ہوگی تو اس کے کونسلر اپنے علاقے کے عوام کو جوابدہ بھی ہوں گے یہاں تو 12 ارب کا پتا نہیں کہ 12 روپے بھی لگے ہیں یا نہیں۔ لیکن کیا جوابدہی کے بارے میں ہمارے حکمرانوں کا کوئی نظریہ ہے۔ ایسا لگتا تو نہیں۔ بلکہ لگتا تو یہ ہے کہ ان میں جوابدہی کا کوئی تصور ہی نہیں۔ سندھ پر حکمران گروہ گزشتہ تقریباً پندرہ برس سے حکمران ہے لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ خود وسائل پر قبضے اور کنٹرول کے سوا کوئی کام نہ کیا بلکہ کسی اور کو بھی یہ کام نہ کرنے دیا، جب کہ گزشتہ دنوں سندھ کے وزیر سعید غنی صاحب تو قابو سے باہر ہوگئے اور ایک دن جوش خطابت میں کہنے لگے کہ کراچی کے لوگوں نے خود سڑکیں توڑ ڈالیں، پانی کی لائنیں خراب کردیں، گٹر بند کردیے۔ ان کے نزدیک سارے مسائل کی جڑ کراچی والے ہی تھے۔ اس پر بھی جب ان کو سکون نہیں ملا تو جماعت اسلامی، جماعت اسلامی کی گردان کرنے لگے۔ یہ کیوں ہوا۔ دراصل الیکشن سے فرار بھی جماعت اسلامی کی وجہ سے چاہ رہے تھے۔ ایم کیو ایم، پی ٹی آئی وغیرہ سے ان کی ایڈجسٹمنٹ ہوجاتی کیوں کہ یہ لوگ مل جل کر سب کرتے ہیں۔ سعید غنی صاحب کا جوش ٹھنڈا ہوا تو رات جیو کے پروگرام میں اہل کراچی سے معذرت کرلی۔ اس کے بعد انہیں خاموش ہوجانا چاہیے تھا لیکن پھر ان کے اعصاب پر سوار جماعت اسلامی لبوں پر آگئی۔ اگر ایسا ہی ہے کہ شہریوں نے خود سڑکیں توڑ دیں، گٹر بند کردیے، پانی بند کردیا تو 12 ارب روپے وہ شہریوں ہی کے حوالے کردیں وہ لوگ خود سارے کام کرالیں گے۔
یہ نہ سمجھا جائے کہ حکومت سندھ بلدیاتی الیکشن سے فرار کی کوشش ترک کرچکی ہے۔ انہوں نے التوا کے لیے ایک اور خط لکھ دیا ہے۔ شاید کسی طرح الیکشن سے فرار کا موقع مل جائے۔ اس وقت شہر کی جو حالت ہے اس کا اندازہ محض چند چیزوں سے ہوسکتا ہے۔ سما ٹی وی کی رپورٹ ایک طرف یونیورسٹی روڈ جو جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی اس کا سبب ٹینکر مافیا ہے جس نے میلوں تک سڑک پر ٹینکر کھڑے کرکے پانی اور ڈیزل سے اربوں روپے کی یونیورسٹی روڈ تباہ کردی۔ حکومت ان ٹینکرز کو کسی مناسب میدان میں نہیں کھڑا کرسکی۔ اب اسی یونیورسٹی روڈ پر کام شروع کردیا گیا۔ ایک طرف پتھر ڈال کر مٹی ڈال کر ٹریفک چلا دیا گیا تو دوسری طرف بسوں کے لیے ٹریک کی تعمیر شروع کردی گئی تا کہ لوگوں کو کام کرتے نظر آئیں۔ اب سڑک میں جگہ جگہ پتھر اور مٹی اور جگہ جگہ بیریئر لگا کر سڑک تنگ کردی گئی۔ اسی طرح جوہر چورنگی پر بالائے سر گزرگاہ کا کام بھی اسی موقع پر شروع کردیا گیا جب کہ اس کے لیے جماعت اسلامی کئی برس سے جدوجہد کررہی تھی کہ جوہر نالے کی مرمت کی جائے، وہاں گاڑیاں گر کر تباہ ہورہی ہیں، لوگ زخمی ہورہے ہیں، لیکن جب جماعت کی کوششوں سے اس کا منصوبہ منظور ہوگیا تو اسے روک کر رکھا ہوا تھا۔ مقصد یہی تھا کہ الیکشن کے قریب کام کرایا جائے گا لیکن الیکشن سے فرار کی کوششیں بھی جاری تھیں۔ اگر ان کوششوں کے بجائے شہر کی بہتری کی اس قدر کوششیں کی جاتیں تو شہر بہتر ہوچکا ہوتا۔
(جاری ہے)