دوا ساز اداروں کادوائیں مہنگی کرنے کا اعلان

388

دوا ساز کمپنیوں اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی لڑائی کی وجہ سے وطن ِ عزیز میں دوائوں کی قلت ہے اور ایک بڑا بحران سر اٹھا رہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کا کوئی ادارہ اپنے حصے کا کام نہیں کررہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جہاں عوام بڑھتی قیمتوں سے پریشان اور بدحال ہیں وہاں ادویہ کی قیمتوں کی پالیسی میں عدم تسلسل اور قیمتوں پر کوئی واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہر کچھ عرصے بعد دوائوں کی قلت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی طرف سے آواز اٹھتی ہے کہ دوائوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ اسی پس منظر میں پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے ڈریپ کو ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہنگامی طور پر دواساز اداروں کی بقاء کے لیے فوری اور ضروری اقدامات کرے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو فارما صنعت اپنے طور پر عوام کو ادویہ کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اپنے اقدامات کرے گی جس میں ادویہ کی قیمتوں کا تعین کرنا بھی شامل ہے۔ فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے عہدے داروں نے ڈریپ پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ قومی صحت کا یہ ادارہ اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوچکا ہے، جس کے باعث عوام کو سستی اور ضروری ادویہ کا ملنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اس موقع پر منصور دلاور کا کہنا تھا کہ کورونا کے بعد پاکستان ایک مشکل وقت میں ہے اور صحت کے بنیادی مسائل کا بھی سامنا ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا ہے جہاں اس وقت وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں اور وہاں ہر قسم کی ادویہ کی اشد ضرورت ہے۔
اس سے قبل اگست میں وفاقی کابینہ نے وزارتِ قومی صحت کی جانب سے کم از کم 35 ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کے لیے پیش کی گئی سمری کو مسترد کردیا تھا۔ ایک خبر کے مطابق اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مرگی، ملیریا، پیٹ اور بخار کی بیماریوں، جِلد اور ڈپریشن کی دوائوں سمیت مختلف ادویہ، انجکشن اور مرہم مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں، اور ہیں بھی تو اضافی قیمت پر فروخت ہورہے ہیں، جس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ ان دوائوں کی پیداواری لاگت موجودہ قیمت سے 100 فی صد بڑھ چکی ہے، انڈسٹری بحران کا شکار ہے، 600 میں سے 160 کے قریب فارما صنعتیں یا تو بند ہوچکی ہیں یا انہیں فروخت کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ پیرا سیٹامول کی قیمت 1.70 روپے فی گولی ہے اور اب اس کی لاگت 2.70 روپے ہوچکی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ’’گیس، پٹرول، انتظامی اخراجات بڑھ گئے ہیں، مارکیٹ میں ہر چیز کی قیمت بڑھ چکی ہے لیکن فارما انڈسٹری کے لیے طے شدہ فارمولے کے تحت قیمت میں اضافہ ہر مرتبہ مسئلہ بنا دیا جاتا ہے، فارما انڈسٹری کا 95 فی صد خام مال درآمد ہوتا ہے، ہمیں سانس لینے کی بھی اجازت نہیں‘‘۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کراچی میں بحران سے قبل پیناڈول کا سو گولیوں کا ایک پیکٹ 350 روپے میں ملتا تھا، اور اب 1000 روپے میں مل رہا ہے۔ اس دوران خبروں میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پاکستان میں 150 کمپنیوں کے پاس پیراسٹامول (پیناڈول) بنانے کا لائسنس ہے لیکن یہاں اہم سوال یہ بنتا ہے کہ کیا دیگر کمپنیاں یہ دوا بنا رہی ہیں؟ اور نہیں، تو کیوں نہیں بنا رہی ہیں؟ یہاں پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا کیا کردار بنتا ہے اور وہ اس سلسلے میں کیا کررہی ہے؟ پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ذمے داروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’ڈرگ ایکٹ 1976ء پر عمل کرتے ہوئے ڈریپ کی ذمے داری عوام اور انڈسٹری دونوں کے لیے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مناسب قیمتوں پر ادویہ فراہم کی جائیں، لیکن ڈریپ اپنا یہ کردار ادا نہیں کررہی ہے، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں سو سے زائد دوائوں کی قلت ہے‘‘۔ اس صورتِ حال میں جہاں کمپنیوں کے اٹھائے گئے سوالات اور الزامات ہیں، اور اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے اور خام مال کے بین الاقوامی مارکیٹ میں مہنگا ہونے کی وجہ سے مسائل ہیں، وہاں ایک رائے یہ بھی ہے کہ ان دوا ساز اداروں کا ردعمل بہت حد تک مبالغہ آرائی پر مبنی ہے، اور یہ سارا شور دوائوں کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ اس صورتِ حال میں ساری ذمے داری حکومت اور اس کے ادارے ڈریپ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ کیا کررہا ہے۔ اسے دیکھنا ہوگا کہ کیا پاکستان میں دوا ساز اداروں کو واقعی اپنی تیار کردہ مصنوعات کی صحیح قیمت نہیں ملتی اور یہ کمپنیاں برسوں سے اسی طرح خسارے میں چل رہی ہیں؟ یا دوا ساز کمپنیوں کی شکایات بے بنیاد ہیں؟ جو بھی ہو، حکومت اور دوا ساز کمپنیوں کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ عوام کو دوائیں سستی ملیں، پہلے ہی وہ مہنگائی کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں نئی دوائوں کی تخلیق پر کام نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں غیر ملکی کمپنیوں کے پیٹنٹ فارمولے کو لے کر ان کی جینرک دوا تیار کرنے سے زیادہ معاملہ آگے نہیں بڑھتا۔ زیادہ تر خام مال بھارت اور چین سے درآمد کیا جاتا ہے، اور یہی دوائوں کی قیمت بڑھنے کی سب سے اہم وجہ بھی ہے۔ اس لیے بنیادی ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ حکومت اور دوا ساز ادارے اور کمپنیاں خام مال کی مقامی سطح پر تیاری کے لیے عملی اقدامات کریں، دواسازی صنعت کے قیام کو یقینی بنائیں، تاکہ ایک عام آدمی کو کم سے کم قیمت میں دوائیں دستیاب ہوں اور ہر کچھ دنوں کے بعد بحرانی کیفیت کا سامنا نہ ہو۔