اتفاق رائے تو قرآن و سنت پر ہونا چاہیے

386

صدر مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا یہ سنجیدہ معاملہ ہے سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کو بیٹھ کر طے کرنا چاہیے۔ صدر نے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کے بارے میں کہا کہ اگر یہ خراب ہیں بھی تو یہ ان ہی کا کام ہے کہ درست بھی کریں۔ بظاہر یہ ایک اصولی بات ہے اور آرمی چیف کیا ہر معاملے پر پارلیمنٹ اور ملک میں اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ البتہ رائے کا اختلاف تو ایک فطری معاملہ ہے اس کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔ پاکستان میں ان ہی امور پر آئین لپیٹا جاچکا ہے۔ صدر کے اس جملے کا مطلب کیا سمجھا جائے؟ کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر آرمی چیف کے مسئلے پر اتفاق نہیں ہوا تو آئین لپیٹ دیا جائے گا۔ اور یہ کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر عمران خان کی رائے واضح طور پر آچکی ہے اس معاملے پر اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ اس رائے کا مطلب بھی کیا یہی ہے کہ عمران خان کی رائے پر اتفاق رائے قائم کیا جائے؟ حکومتی حلقوں کی رائے بھی تو بہت واضح طور پر آچکی ہے۔ پاکستان میں یہ عجیب اتفاق ہے کہ آئین کو سب بالادست کہتے ہیں اور اس آئین میں قرآن و سنت کو بالادست تسلیم کیا گیا ہے کہ کوئی قانون اسلام کے منافی نہیں بنایا جاسکتا۔ لیکن آئین اور اسلام ہی میں ہر دور میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ پہلے تو یہ کہا جاتا تھا بلکہ اب بھی کہا جاتا ہے کہ کون سا اسلام نافذ کیا جائے کے دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی یا اہلحدیث۔ اس کا جواب پہلے بھی یہی دیا جاتا رہا ہے کہ قرارداد مقاصد میں تمام مکاتب فکر کے علما نے متفقہ نکات پیش کیے تھے جو اب آئین کا حصہ ہیں۔ ظاہر ہے اب کوئی نیا مکتبہ فکر تو وجود میں نہیں آیا پھر اس پر اتفاق رائے کیوں نہیں ہوتا۔ صدر مملکت کی رائے بجا ہے اور یہ کہنا بھی کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے تعلقات وہ خود ٹھیک کریں۔ اس میں ایک قابل غور پہلو ہے کہ پہلے پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی پر حقیقی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ یہ بھی طے کیا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ بشمول فوج، خفیہ ادارے اور طالع آزما سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے، آئین کی پابندی کریں گے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات خراب ہوگئے ہیں لیکن یہ تعلقات خراب ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت ہی نہیں اپنی مرضی کی حکومتیں بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ جب وہ عمران خان کو حکومت میں لارہی تھی اور صدر مملکت بھی اس وقت کامیابی کے سرور میں تھے اور مسلم لیگ اور پی پی اسی طرح ناراض ہورہے تھے جیسے اب عمران خان ہیں۔ جناب صدر اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر بنانے کا مشورہ دینے کے بجائے یہ مشورہ دیں کہ سیاستدان اور پارلیمنٹ مل بیٹھ کر آپس کے تعلقات کو آئین کے دائرے میں رکھیں، خود اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار نہ بنیں اور اس کو آئین کا پابند بنائیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر بنانے کا مطلب تو اسے ایک بار پھر سیاست میں مداخلت کا موقع دینا ہے۔ اگر حکمران اور اپوزیشن پارلیمانی پارٹیاں آئین کی پابندی اور قرآن و سنت کی بالادستی پر اتفاق کرلیں تو یہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کا جو طریقہ کار ہے اسی کے مطابق اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ پاکستان میں صدر آصف زرداری بھی رہے ہیں اور دوسرے رہنما بھی ان سب پر مقدمات بھی رہے ہیں اور اس کے باوجود پہلے بھی آرمی چیف کی تعیناتی ہوتی رہی ہے۔ آئین لپیٹے جانے سے سیاستدانوں اور قوم کو ڈرانے کے بجائے صدر مملکت اسٹیبلشمنٹ کو ڈرائیں کہ آئین لپیٹنے کا عمل خطرناک ہوگا اور اس کی سزا کے بارے میں سیاستدانوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ویسے یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان میں صرف آرمی چیف پر اتفاق رائے پر اصرار کیوں کیا جارہا ہے۔ سیلاب زدگان کی مدد پر اتفاق رائے کیوں نہیں۔ آئین کی بالادستی پر کیوں نہیں۔ شریعت کا مذاق اڑانے والوں کے خلاف کیوں نہیں۔ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف کیوںنہیں۔ کالا باغ اور دیگر ڈیموں پر کیوں نہیں۔ آئی ایم ایف اور قرضوں سے جان چھڑانے اور بیرونی مداخلت کے خلاف کیوں نہیں۔ صدر مملکت کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے ہے اور اس پارٹی کے سربراہ اور دیگر عہدیدار مسلسل آرمی اور آرمی چیف کو موضوع بنائے ہوئے ہیں۔ صدر کی بات سے ایک مرتبہ پھر آرمی چیف موضوع بن گئے ہیں۔ حالاں کہ فوج کے ترجمان نے واضح کردیا ہے کہ اب وہ مزید توسیع نہیں لیں گے۔ جناب صدر دیگر قومی امور پر اتفاق رائے پیداکرنے کی کوشش کریں۔اس سے بھی بڑھ کر جن امور پر اتفاق رائے ہے ان پر عمل تو کریں پورا73 کا آئین اتفاق رائے سے تو بنا تھا ۔ اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟