شہر کو سیلاب لے گیا

458

اے آنکھ اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
ملک بھر میں مون سون کی حالیہ بارشوں اور اس کے ساتھ آنے والے سیلاب نے معمولات زندگی کو درہم برہم کردیا۔ بلوچستان تو گویا تباہی کا مرکز بن گیا لیکن بڑی جماعتوں کے رہنمائوں کا حال یہ تھا کہ انہیں اقتدار کے خواب دیکھنے اور انہیں سچا کرنے کی جدوجہد ہی سے فرصت نہ تھی کہ بلوچستان کی طرف توجہ دیں۔ بلوچستان کے گائوں کے گائوں ڈوب رہے تھے، پریشان تھے کہ پانی ان کے بچوں کو، بزرگوں کو بہا کر لے جارہا ہے۔ خیر محمد بلوچ بتا رہے تھے کہ اوڑکی کے علاقے میں ان کے سو کے قریب لوگ درختوں پر ہیں، ان کے گھر زیر آب آچکے ہیں، کھانے پینے کی کوئی چیز اُن کے پاس نہیں۔ بعض مقامی لوگوں نے کمر سے رسے باندھ کر لوگوں کو باہر نکالا لیکن یہ ان کے لیے اب ممکن نہیں ہے۔ آخر حکومت لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے کوئی قدم کیوں نہیں اُٹھا رہی، کوئی ہیلی کاپٹر، کوئی بوٹ کیا بس وہ وزرا اور حکومتی اراکین کے لیے ہے۔ کوئی کشتی ہی جانیں بچانے کے لیے بھیج دیں، پانی کی شدت سے دریائے حب کے پل کے چار پلر گر پڑے، سڑکوں کا نشان تک مٹ چکا ہے۔ یہ جولائی سے قبل کی بات ہے کہ بلوچستان میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ حکومتی ادارے پہلے سے اس دفعہ غیر معمولی حالات کی پیش گوئی کررہے تھے لیکن وفاقی اور صوبائی سطح پر کوئی تیاری نہیں تھی۔ حکومتوں کا بننا بگڑنا چل رہا تھا۔ اصطبل کے گھوڑے ایک سے دوسرے مالکوں کا منہ دیکھ رہے تھے۔ سرمایہ کا کھیل جاری تھا۔ انسانی جان کی اہمیت ہی کیا ہے؟ اہم تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ ہے، اس کی گدی ہاتھ سے نکل گئی تو سمجھو پاکستان کا اقتدار بھی ڈانواں ڈول ہے۔ یہ انتخاب آگے پیچھے نہیں ہوسکتے، ایک دن کی تاخیر بھی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ کبھی ایک وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ اور کبھی دوسری اہمیت تو اقتدار کی تھی لہٰذا کیا ہوا کہ میرا بلوچستان ڈوبا لوگوں کی کھیت کھلیان ڈوبے پھل دار درخت ڈوبے گھر تباہ حال اور گائوں کے گائوں برباد ہوئے۔ لوگ جھونپڑیوں کی چھتوں پر ہوں یا درختوں پر ٹنگے ہوں، ننھے بچے بھوک پیاس سے بلبلا رہے ہوں، بلوچستان کے کتنے ہی ضلعوں کے لوگ اپنے رشتے داروں کے لیے فریاد کناں کہ خدا کے لیے ان کے لیے مدد بھیجو، ان کے گھر برباد ہوگئے، اُن کی جانیں تو بچا لو لیکن میڈیا کو اقتدار کی جلیبیاں تلتے سیاست دان دکھانے سے فرصت نہیں۔ لسبیلہ کے خیر محمد بلوچ تین دن دہائی دیتے رہے کہ خاندان کے خاندان خواتین اور بچوں سمیت سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لسبیلہ کے علاقے گوٹھ پیپڑی، گوٹھ سدوری اور ایسے ہی کتنے ہی دیہات سے آباد تھے۔ یہاں کے کوئی ایک دو نہیں سیکڑوں لوگوں نے حالیہ سیلاب میں جانی اور مالی نقصان سہا ہے۔ احمد یار کی طرح کتنے ہی ستر پچھتر سال کے بزرگوں نے اپنے جگر گوشے کھوئے اور کتنے ہی احمد سدوئی کی طرح نوجوانوں نے اپنے والدین کو کھویا۔ ان کے لیے مارے مارے پھرے، لوگوں سے دریافت کرتے ہوئے ڈھونڈتے ہوئے دن پر دن گزارے۔ کبھی ایک سے پوچھتے کہ تم نے میرے بیٹے اور اس کے گھر والوں کو دیکھا ہے؟ اُن کے بارے میں کوئی خبر ہے؟ انکار کی صورت میں آس اُمید لیے دوسرے سے پوچھنے آگے بڑھ جاتے۔ پچھتر سالہ احمد یار بتاتے ہیں کہ ’’سب کے انکار پر میں سمجھ گیا کہ انہیں پانی لے گیا ہے۔ پھر میں نے اپنے بیٹے، بہو اور ان کے دو بچوں کی لاشوں کو ڈھونڈنا شروع کیا، مجھے کیچڑ اور پانی میں وہ مل گئیں۔ میں نے انہیں اپنے ہاتھوں سے باہر نکالا، چھوٹی پوتی اپنی ماں کے کندھے سے لگی تھی۔ انہیں نکالنے کے بعد مجھے کچھ ہوش نہیں رہا۔ ہوش آیا تو میرے جگر گوشوں کو دفنایا جاچکا تھا۔ میرا دُکھ کوئی تصور کرسکتا ہے؟ بند ٹوٹا اور سب بہہ گیا پورا گائوں تباہ ہوگیا۔ کوئی نہیں آیا‘‘۔ لسبیلہ کا علاقہ لاکھڑا حالیہ سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان ہونے والے علاقوں میں شامل ہے۔ ستم یہ ہوا کہ بند ٹوٹا پھر یہاں پہنچنے والا مرکزی پل ٹوٹا اور یوں اس علاقہ کا رابطہ دیگر علاقوں سے منقطع ہوگیا۔ شہری پریشان ہیں حب ندی کا پل کئی ہفتوں سے ٹوٹا ہوا ہے، شہریوں کو 10 کلو میٹرکا اضافی فاصلہ طے کرکے حب بائی پاس سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے باعث یہ دس کلو میٹر ایک اضافی روز کا خرچہ ہے۔ ادھر وزیراعظم کی ہدایت پر سیلاب متاثرین کی امداد انہیں نہیں مل پارہی ہے کہ کیوں کہ انتظامیہ متاثرین سے شناختی کارڈ مانگ رہی ہے۔ جب کہ متاثرین سیلاب میں اپنے پیاروں کی جانیں نہ بچا پائے، شناختی کارڈ کہاں سے لائیں؟ پانی سے ڈوبے گھر اور سیلابی کیچڑ میں شناختی کارڈ کیسے ڈھونڈیں؟۔ نذیر احمد ضلع خضدار کے ایک گائوں کے رہائشی ہیں ان کے گائوں میں ڈھائی سو گھر تھے، وہ بتاتے ہیں کہ اب اُن میں سے کوئی گھر بھی رہنے کے قابل نہیں ہے۔ گھروں کی تباہی کے بعد لوگ کھلے آسمان تلے کھانے پینے کی اشیا، برتن، کپڑے سب ہی برباد ہوگئے۔ حکومت نے خاندان کو ایک ایک دو دو خیمے دیے تھے لیکن طوفانی بارشوں کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا ہے تو ہوا انہیں اکھاڑکر رکھ دیتی ہے اور ہم اُس کو سنبھال نہیں سک رہے۔ مون سون کے بادل پھر گھر گھر کر آرہے ہیں۔ زندگی کی آس و اُمید کے لیے غریب حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن حکومت کس کی طرف دیکھ رہی ہے یہ سمجھ نہیں آرہا۔ شاید وہ ہی خواب دیکھنے میں لگی ہے۔