پاکستان کا 75واں یومِ آزادی

579

آج وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 75واں یومِ آزادی ہے، پاکستان کا معرض وجود میں آنا کوئی اچانک یا اتفاقی واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے اسباب و علل کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ 14اگست کا دن دو قومی نظریے کا حاصل ہے کہ برصغیر میں رہنے والے مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں تھیں اور ہیں، یہ تقسیم کل بھی تھی اور آج ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ بدترین سلوک دیکھ کر قائد اعظم کی دور اندیشی پر یقین اور بڑھ جاتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنی حب الوطنی ثابت کرتے کرتے تھک گئے لیکن انہیں انتہا پسند ہندو ریاست قبول کرنے کو تیار نہیں، ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 20فی صد سے زائد اور تقریباً 25 کروڑ کے قریب ہے۔ لیکن وہ تعلیم، روزگار، صحت اور سیاسی نمائندگی کے اعتبار سے سب سے پیچھے ہیں اور ان کی نسل کشی کو خطرہ ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے عنوان سے حاصل ہونے والی مقدس سرزمین کی بد قسمتی اور بدنصیبی یہ رہی کہ یہاں سے انگریز تو چلے گئے لیکن کالے انگریز بڑی تعدداد میں بنا کر چھوڑ گئے اور ان کی نسل آج بھی اسی طرح اْن کی وفادار ہے جس طرح ان کے غلام آباواجداد تھے، یہ طبقہ آج بھی انگریز کی ذہنی اور عملی غلامی سے نہیں نکل سکا ہے، ان میں سے تو بڑی تعداد اْن لوگوں کی ہے جو قوم سے غداری اور انگریز سے وفاداری کے عوض لی گئیں جاگیریں اور انعامات کا حق ادا کررہی ہیں اور ان ہی کی بڑی تعداد ہماری سیاست، صحافت اور اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آج بھی یہ بحث چھیڑتے رہتے ہیں کہ پاکستان دو قومی نظریہ اور اسلام کی بنیاد پر بنا تھا یا معاشی وسماجی بنیادوں پر بنا تھا، یہ باتیں صرف اور صرف نئی نسل اور قوم کوگمراہ کرنے، اپنی منزل سے دور کرنے اور قیام پاکستان کے بلند مقاصد کو پس پش ڈالنے کے کھیل کا حصہ ہیں ہماری بد قسمتی یہ بھی ہے کہ یہی طبقہ 75سال سے برسر اقتدار ہے، جب کہ بانی پاکستان قائد اعظم قیام پاکستان کے مقصد کے حوالے سے بالکل صاف اور کھرا موقف رکھتے تھے اسی لیے مارچ 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوے آپ نے فرمایا تھا کہ: ”ہندو اور مسلم دو الگ مذہبی فلسفوں، سماجی روایات اور ادبیات سے تعلق رکھتے ہیں، یہ دونوں دو مختلف تہذیبوں کے نمائندے ہیں اور ان کے خیالات اور رسوم ہمیشہ متصادم ہی رہیں گی“۔ اس طرح آپ نے فرمایا تھا کہ ”مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے۔ نہ وطن ہے‘ نہ نسل ہے۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ قائد اعظم کیا کمال کے قائد اور دور تک دیکھنے والے رہنماء تھے وہ اْس وقت کے بدلتے سیاسی حالات اور جبر میں اپنے اصولی موقف پر شروع دن سے کوئی دو رائے نہیں رکھتے تھے، آپ کے الفاظ تھے ”ہم کوئی ایسا نظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جس کی رو سے ایک غیر مسلم اکثریت محض تعداد کی بناء پر ہم مسلمانوں پر حکومت کرے اور ہمیں اپنا مال بردار بنا لے“۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا؟ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13 سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور تا قیامت موجود رہے گا۔ (جالندھر میں مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب‘ 12جون 1947ء) یہ باتیں قائد اعظم نے تحریک پاکستان کی جدوجہد کے دوران کوئی جذباتی طور پر نہیں کہہ دی تھیں بلکہ پاکستان کی بنیاد اور خیال اسلامی نظریہ حیات کے تصور کے ساتھ تاریخِی طور پر موجود تھا جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے اور جو پیام شاہجہاں پوری نے اپنی کتاب تاریخ نظریہ پاکستان“ میں لکھی ہے کہ: ترکیہ میں ایک نہایت ممتاز ادیب خاتون خالد ادیب خاتم جنہوں نے ہندوستان میں اس دوران کافی لیکچر بھی دیے تھے انہوں نے چودھری رحمت الٰہی سے تحریک پاکستان کے پس منظر میں متعدد سوالات کیے تھے، چودھری صاحب نے ان سوالات کے جو جواب دیے وہ ان کی کتاب میں درج ہیں۔ ہندوستان کے شمالی مغرب علاقے کے مسلمانوں کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوے چودھری رحمت علی نے کہا کہ: ”اس علاقے میں مسلمان بارہ سوسال سے بھی زائد عرصہ سے آباد ہیں، ان کی اپنی تاریخ ہے، ان کی اپنی تہذیب ہے او ر ان کا اپنا تمدن ہے، انہوں نے کہا کہ محترمہ میری خواہش ہے کہ آپ پاکستان اور ہندوستان میں جو بین فرق ہے اور جو آئندہ بھی برقرار رہے گا اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلیں“۔
اور اس پورے تصور پاکستان کے ساتھ جہاں علامہ اقبالؒ کی فکری رہنمائی موجود تھی، وہاں سید مودودی ؒکا بھی تحریکِ پاکستان میں اہم اور متحرک کردار راہ تھا، لیکن وہی طبقہ جو پاکستان کے قیام کے مذہبی پس منظر کو رد کرتا ہے اسی نے تحریک پاکستان کے حوالے سے مولانا مودودیؒ سے متعلق دلائل و شواہد کے بغیر اِدھر اور اُدھر کی چیزیں سیاق وسباق سے ہٹ کر کئی جھوٹے گمراہ کن باتیں پھیلائی ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دو قومی نظریہ کے تصور اور فکر کو فروغ دینے اور اسے نکھارنے میں مولانا مودودیؒ کی تحریروں کا اہم کردار تھا۔آپ وہ پہلے شخص تھے جس نے ا پنے متعدد مضامین کے ذریعے تحریک پاکستان کے نظریاتی تشخص کو واضح کیا اور نظریہ پاکستان کو علمی سطح پر دلائل کے ساتھ پیش کیا اور پاکستان کے حق میں دو قومی نظریہ کے لیے زبردست عقلی اور اسلامی دلائل فراہم کیے تھے، اس ضمن میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے مشہور کتاب ”علما سیاسی میدان میں“ میں لکھا ہے کہ: ”سید مودودی ؒ نے اس زمانے میں اسلامی ریاست، مسئلہ ملکیت زمین اور مسلم قومیت کے حوالے سے جو تحریریں شائع کیں، مسلم لیگ نے لاکھوں کی تعداد میں ان سے پمفلٹ بنا بنا کر شائع کیے اور پورے ہندوستان میں ان کی بھرپور تشہیر کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم یافتہ طبقہ اور باشعور مسلمان کانگریس میں جانے سے بچ گئے اور وہ مسلم لیگ میں شریک ہو کر قائد اعظم کی قیادت میں سرگرم عمل ہو گئے‘ یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ جب مسلم لیگ نے اسلامی دستور کے خدوخال مرتب کرنے کے لیے جید ماہرین پر مبنی کمیٹی تشکیل دی تو اس میں سید مودودیؒ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ مولانا نے اس کمیٹی کی رکنیت کو قبول کیا اور پوری دلچسپی و ارادے سے اپنا کام کیا۔ اور پھر یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ 1941میں سید مودودی ؒ کے پیغام کے ساتھ قمر الدین صاحب کو قائد اعظمؒ کے پاس بھیجا گیا۔ جنہوں نے قائد اعظم ؒ سے دہلی میں مفصل ملاقات کی قائد اعظمؒ نے اس موقع پر فرمایا: ”وہ سید مودودیؒ کی خدمات کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں“۔ اور بات صرف یہی پر ختم نہیں ہوگئی بلکہ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظمؒ نے مولانا مودودیؒ کو دعوت دی تھی کہ وہ ریڈیو پر اپنے لیکچرز کے ذریعے اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ قائم کرنے کے لیے پاکستانی عوام کی رہنمائی کریں، اور پھر مولانا نے قائد اعظم کی خواہش کے مطابق بہت سی تقاریر کیں جو اسلامک پبلی کیشنز نے ”اسلام کا نظامِ حیات“ اور ”نشری تقریریں“ کے نام سے شائع بھی کیں جو ہماری انمنٹ تاریخ کا حصہ ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں نئی نسل کو یہ معلوم ہو کہ پاکستان کس طرح بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا، انگریزوں کے بعد ہندووں کے کتنے ظلم برداشت کیے ہیں، وہاں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کرواتے ہوئے قیام پاکستان کے اصل مقاصد سے ہم آہنگ کریں۔ اور مملکت خداد کو ایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی سعی کریں۔