یوکرین کیلیے امریکی اسلحہ کہاں جارہا ہے

455

ایک امریکی نشریاتی ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی حکومت اس بات سے لاعلم ہے کہ امریکا کی جانب سے یوکرین کو بھیجا جانے والا اسلحہ کہاں جارہا ہے اخبار کے مطابق امریکی حکام کہہ رہے ہیں کہ جس مقصد کے لیے یہ اسلحہ بھیجا جاتا ہے وہ شاید پورا نہیں ہورہا۔ لگتا ہے کہ امریکی اسلحہ کسی بلیک ہول میں جارہا ہے۔ رپورٹ میں اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ امریکا ایک بار پھر عراق، شام اور افغانستان میں کی جانے والی غلطی دہرانے جارہا ہے۔ لیکن بات اس سے زیادہ سنگین ہے۔ امریکی حکام اس انداز سے اسلحہ کے بارے میں تبصرہ کررہے ہیں جیسے بسکٹ کے پیکٹ کہیں اور پہنچ رہے ہیں۔ جو ملک غریب ضرورتمند اور آفات سے متاثرہ ممالک کو امداد دیتے ہوئے چند لاکھ ڈالر کی جانچ پڑتال ایک ایک پہلو سے کرتا ہے کسی کو ایک ڈالر بھی تصدیق کے بغیر نہیں دیتا وہ کروڑوں ڈالر کا اسلحہ یونہی ضائع کررہا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ امریکا کسی نئی جنگ کے لیے یہ اسلحہ کہیں ذخیرہ کررہا ہے یا دہشت گرد گروپوں کے ہاتھ یہ اسلحہ لگ رہا ہے۔ اس اعتبار سے تو امریکی حکومت نے غیر ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ اسلحہ شاید بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوجاتا ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے دنیا بھر میں آگ اور بارود کا کھیل کھیلنے والا ملک فروری سے اب تک یوکرین کو 54 ارب ڈالر کی عسکری اور معاشی امداد دے چکا ہے جبکہ برطانیہ 3 ارب ڈالر اور یورپی یونین ڈھائی ارب ڈالر کا اسلحہ دینے کی منظوری دے چکے ہیں۔ اس اسلحہ میں رائفل، دستی بم، ٹینک شکن میزائل اور راکٹ فائرنگ نظام بھی شامل ہے۔ امریکیوں نے اپنے ٹیکس دہندگان کے ٹیکس سے عراق میں اسلحہ کے بڑے بڑے ڈھیر جمع کیے۔ افغان جہاد کے دور میں پاکستان کو بھی خوب اسلحہ دیا اور جب ضرورت پوری ہوگئی تو ان ذخائر کو عراق اور پاکستان میں تباہ بھی کردیا۔ امریکیوں کو اپنے حکمرانوں کے اس عمل کا نوٹس لینا چاہیئے۔