ہر جانب کربلا… حسینؓ کا انتظار ہے

514

دنیا بھر کے مسلمان دس محرم الحرام کو حضرت امام حسینؓ کا یوم شہادت مناتے ہیں۔ پاکستان میں آج عاشورہ محرم ہے۔ پاکستانی قوم بھی بلاتخصیص مسلک امام عالی مقام کا یوم شہادت منارہے ہیں۔ لیکن جس طرح مسلمان اپنی عبادات اور دیگر رسوم عبودیت کے ساتھ سلوک کرتے ہیں یہی سلوک یوم شہادت امام حسینؓ کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال عیدین پر زبردست جوش و خروش ہوتا ہے۔ عیدالفطر کی تیاریاں الگ انداز سے اور عیدالاضحی کی الگ ہیں۔ یہی معاملہ رمضان المبارک کے ساتھ ہوتا ہے۔ پورا ملک روزے رکھتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے، تراویح کا اہتمام کرتا ہے، لوگ حج پر جاتے ہیں، سالانہ عمرے کرتے ہیں اور تمام عبادات ٹھیک اسی طرح ادا کرتے ہیں جیسا سکھایا گیا ہے۔ لیکن مسلمانان عالم کو دنیا بھر میں رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہورہا۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ مسلمان نماز، روزہ، قربانی اور حج تو کرتے ہیں لیکن روح سے خالی… یہی معاملہ شہادت امام حسینؓ کا ہے۔ امام سے نسبت کے لیے ہم بے چین رہتے ہیں بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں لیکن امام کی قربانی کی روح سے بے شمار لوگ ناواقف ہیں۔ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ امام نے اس لیے خود کو اور کنبے کو نہیں کٹوایا تھا کہ وہ حکومت لینا چاہتے تھے یا جن لوگوں سے تنازعہ تھا وہ نمازیں نہیں پڑھتے تھے مسلمان نہیں تھے بلکہ اصل بات یہ تھی کہ امام نے نظام ریاست کی شکل بگڑتے اور تبدیل ہوتے دیکھ لی تھی۔ ان کو معلوم تھا کہ خاندانی بادشاہت اور حکومت ایک اسلامی ریاست کی بنیادوں کو ڈھادے گی۔ اسلامی ریاست میں حکمران پہلے خود اللہ کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے لیکن خاندانی اور انسانی بادشاہی میں ملک خدا کا اور حکم خدا کا… نہیں رہتا بلکہ ملک بادشاہ کا اور حکم بھی بادشاہ ہوتا ہے ، اس تبدیلی نے اسلامی ریاست کی وہ تمام خصوصیات چھین لیں جنہیں چھنتا ہوا امام دیکھ رہے تھے۔ یعنی سب سے پہلے حکمران کا تقویٰ ختم ہونا ہے اس کے حکمران، سپہ سالار، عدلیہ اور عمال حکومت سب تقویٰ اور پرہیز گاری سے مسلح ہوتے ہیں لیکن جب اللہ کا ڈر نکل جائے اور بادشاہ کا خوف دل میں آجائے تو دو خوف ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ پھر اللہ کا خوف نکل جاتا ہے۔ اسلامی ریاست کے معاملات قرآنی حکم کے تحت مشاورت سے چلنے چاہئیں لیکن انسانی بادشاہت میں یہ کام ممکن نہیں، مشاورت بھی صرف شاہی خاندان کے لوگوں اور مقربین سے ہوتی ہے اور صائب الرائے لوگوں کو کنارے لگا دیا جاتا ہے، حکمران اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جوابدہ ہوتا تھا، اس کے علاوہ قومی خزانہ یا بیت المال میں جو کچھ بھی ہو وہ خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہوتی تھی۔ تقویٰ اور پرہیز گاری سے سرشار حکمران مشورے بھی ایسے ہی لوگوں سے لیتا اور امانت کا بھی پاس رکھتا تھا۔ لیکن جب اللہ کے احکام کی جگہ انسان کے قانون کا نفاذ ہوتا ہے تو یہ تقویٰ، پرہیز گاری، مال کی امانت اور صائب لوگوں سے مشورے سب پس پشت چلے جاتے ہیں۔ عام آدمی سے لے کر حکمران تک سب کو ایک قانون کا پابند ہونا چاہیے لیکن خاندانی اور انسانی بادشاہت میں دو قوانین جاری ہوتے ہیں۔ اور حکمران اور رعایا مساوی نہیں ہوتے جبکہ اسلامی ریاست میں کسی کا حسب نسب کام نہیں آتا لیکن انسانی بادشاہت کے آتے ہی اسلامی ریاست کے خاتمے کا آغاز ہوگیا تھا۔ امام نے قربانی دے دی، ہمیں سبق دے دیا کہ کس چیز کے لیے گردن کٹوانی ہے۔ اب ہم اپنے ملک کو دیکھیں تو امام حسینؓ کی قربانی کے سارے واقعے کو پاکستان سے ملا کر حیران کن مماثلت نظر آتی ہے۔ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ بانی پاکستان نے بارہا واضح طور پر اعلان کیا کہ پاکستان میں اسلامی قوانین نافذ ہوں گے۔ لیکن یہاں بھی قائد کی وفات اور لیاقت علی خان کے قتل کے بعد تقویٰ سے عاری حکمران، امانت سے خالی عمال اللہ کے قانون کے بجائے انسانی قانون نافذ کرنے، اللہ کے فیصلوں کے بجائے عدالتیں انسانی قانون سے فیصلے کرنے لگیں۔ سپہ سالار دل میں اللہ کے خوف کے بجائے توپ و تفتگ پر بھروسا کرنے لگے۔ اور مشورے جس کے لیے اسمبلیاں بنتی ہیں ان میں صائب الرائے لوگوں کا آنا ہی ناممکن بنادیا گیا۔ جس وقت یہ تغیر آرہا تھا اس وقت ملک کے علمائے کرام نے جمع ہو کر 31 نکات پر قوم کو متفق کیا اور ایک طرح سے نظریہ پاکستان کی تجدید ہوئی کہ ملک خدا کا اور حکم بھی اسی کا۔ لیکن انسانی حکمرانی کے شوقین لوگوں نے اسلامی ریاست کی بنیادوں، تقویٰ، شوریٰ، امانت، خدا کی زمین پر خدا کا حکم، خوف خدا… سب بدل کر رکھ دیا۔ قومی خزانے یعنی بیت المال کو خاندانی جاگیر سمجھا گیا۔ لیاقت علی خان کے دور میں منظور ہونے والی قرارداد مقاصد میں کہا گیا تھا کہ چوں کہ اللہ ملک اور کائنات کا بلاشرکت غیرے مالک ہے اس لیے ریاست کو حاصل اقتدار اللہ کی امانت ہے۔ ملک میں اسلامی مساوات، جمہوری اقدار اور عدل پر اسلام کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عقیدہ رکھنے کی آزادی ہو، اس قرارداد کی منظوری کے بعد جس میں پاکستان میں شامل علاقوں کے وفاق کے قیام بنیادی حقوق کی فراہمی اور سب کے لیے عدل کا وعدہ کیا گیا تھا انسانی بادشاہوں نے صرف وفاق قائم کیا اور تمام حقوق اور اصولوں کو پامال کردیا۔ آج امام حسینؓ کی یاد منانے والوں کی ذمے داری ہے۔ وہ حسینی کردار کا مظاہرہ کریں اور پاکستان میں بھی اسلامی ریاست کے منہدم شدہ اصولوں کی دوبارہ تعمیر کرکے انسانی بادشاہت، انسانی قوانین اور غیر اللہ کی حکمرانی کا خاتمہ کرنے کی جدوجہد کریں۔ اس کے لیے ایک بار پھر حسینؓ کی ضرورت ہے۔ کربلا تو گلی گلی میں سجی ہوئی ہے۔ کشمیر، بلوچستان، کے پی کے، پنجاب، سندھ کراچی سمیت ہر جگہ کربلا ہے بس حسینؓ کا انتظار ہے۔انسانی بادشاہت نے یہ دن دکھایا ہے کہجس طرح حسینؓ کا راستہ روکا گیا اسی طرح پورے ملک میںمسلمانوں ہی کے راستے بند کیے جاتے ہیں۔ لوگ سڑکوں پر چکراتے رہتے ہیں اور قانون کے بجائے انسانوں کا راج ہوتا ہے۔