پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں

543

پاکستان کی سیاست میں پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے وہ الگ معاملہ ہے کہ کوئی یوٹیوب پر تہلکہ خیز انکشافات کے نام پر کوئی وڈیو بنا لے اور ویوز حاصل کرنے کے لیے ملکی سیاست کی غیبی صورت حال بتلا رہا ہو، مگر سیاسی امور پر نظر رکھنے والا پاکستان کی سیاست پر پیش گوئی کرنے سے گریز ہی کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں ایک دستور کے مطابق معاملات چل رہے ہوں وہاں کچھ تو کہا جاسکتا ہے مگر جہاں دستور ہو مگر عمل نہ ہو وہاں کب کیا پتا کہ کون سی گاڑی کس جانب مڑ جائے؟ کوئی نہیں جانتا۔ مگر اب ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی پیش گوئی کرتا نہیں ہے اگر پیش گوئیاں نہیں ہوں گی تو پھر حالات حاضرہ کے ہزاروں پروگراموں کا مواد کیا ہوگا؟ بات کس پر ہوگی؟ ہم زیادہ دور کی نہیں، ابھی حال میں جانے والی پیش گوئیوں پر نظر ڈالتے ہیں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد لانے کی تیاری کی جارہی تھی تو یہ زبان زد عام تھا کہ ون پیج پر ویلنگ کرتے کرتے تحریک انصاف کی حکومت کا کنٹرول خراب ہوا اور اندھے منہ ڈھے گئی اور اب کبھی پاکستان تحریک انصاف کا اقتدار لین پر واپس آنا نا ممکن نظر آتا ہے کیونکہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے کامیاب فارمولے سے پی ٹی آئی کو اقتدار سے باہر کردیا ہے۔ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے اس تجزیے، اس پیش گوئی کو غلط ثابت کردیا کہ پاکستان تحریک انصاف دوبارہ اقتدار میں نہیں آسکتی۔ اب اگر کوئی یہ کہے پاکستان تحریک انصاف کا بیانیہ مقبول نہیں تو چلیے بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے سے اگر کبوتر محفوظ رہ سکتا ہے تو باقیوں کا کیا معاملہ؟ البتہ یہ بحث بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ عمران خان کا بیانیہ طاقتور تھا یا دوسری جماعتیں موثر انداز سے اپنے بیانیے کی تشہیر نہ کر سکی؟ اور یہ بھی بحث موجود ہے کہ عمران خان کی تقاریر کی بدولت آنے والی تبدیلی، جذباتی ہے یا شعوری؟ یہ عقدہ پھر کبھی کھولیں گے۔
پنجاب ہو، خیبر پختون خوا ہو،ا ٓزاد کشمیر ہو، گلگت بلتستان ہو سبھی جگہ حکومت پاکستان تحریک انصاف کی ہے سندھ میں پیپلزپارٹی ہے وفاق میں مخلوط حکومت، بلوچستان میں ہمیشہ رنگ برنگی حکومت ہوتی ہے۔ پنجاب کی صورتحال کے بعد ملک کے سیاسی پنڈت بیٹھے جس میں لندن سے نواز شریف نے کہا کہ وہ تو پہلے بھی حق میں نہ تھا کہ اقتدار میں آتے، لاڈلے کا سارا گند ہمارے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے انہیں کہا کہ بس گھبرانا نہیں ہے! اچھے دن آئیں گے، مدت مکمل کریں گے، مگر کیسے؟ یہ نہیں بتایا۔ آج ڈالر کہاں جا چکا مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے آئی ایم ایف کی سبھی شرائط آپ تسلیم کر چکے مگر آئی ایم ایف تالیاں تو بجا رہا ہے آپ کی فرمابرداری پر مگر جو آپ کو چاہیے وہ نہیں دے رہا آرمی چیف کو بھی متحرک ہونا پڑا اور سیاسی پنڈت اقتدار کے مزے لوٹنے پر بضد ہیں۔ اس تمام صورت حال کو عمران خان کیش کرتے نظر آرہے ہیں مسلم لیگ (ن) نجی محفلوں کے بعد اب میڈیا میں بھی بات کر رہی ہے کہ ہم پھنس گئے کیونکہ یہ سب اسکرپٹ کے مطابق تھا جو مقبول تھے انہیں غیر مقبول کردیا گیا اور جو غیر مقبول تھے انہیں مقبول بنا دیا گیا۔ یہی تو وجہ ہے عمران خان بار بار نئے الیکشن کی تکرار کرتے نظر آرہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مقبولیت کی اس نہج پر وہ موجود ہیں جہاں سے وہ باآسانی اقتدار میں واپسی کریں گے جہاں سے انہیں نکالا گیا تھا اور یہ عمران خان ہی کو نہیں لگتا بلکہ وہ تجزیہ کار جو کہتے تھے کہ عمران خان کی سیاست کا خاتمہ ہوگیا اب وہ دوبارہ فقط جلسوں کی ہی سیاست تک محدود ہوں گے سب کے سب فی الحال غلط ثابت ہوئے ہیں۔