سنا ہے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا؟

721

گزشتہ دنوں ہمارے وزیر خزانہ نے بڑی خوشی کے ساتھ ارشاد کیا کہ آئی ایم ایف کی امداد کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا، کیا عجیب اور بے تکی بات ہے کہ پوری قوم کو قرضوں کی بوجھ تلے دبا کر ہمارے وزیر خزانہ قوم کو نوید سنا رہے ہیں کہ ملک نادہندہ ہونے سے بچ گیا اس میں ہمارے وزیر خزانہ کی کون سی دانش مندی یا کون سی بہترین حکمت عملی ہے کہ جس پر قوم خوشیوں کے شادیانے بجائے آخر کب تک ملک کو بیرونی دنیا کی مرضی اور منشاء کے مطابق چلایا جائے گا؟ حکمرانوں نے عوام کا غربت اور مہنگائی کی مار سے دیوالیہ نکال کر قوم کو تو عذاب میں دھکیل دیا ہے، جب عوام کا خون نچوڑ کر ہی ملک کے لیے وسائل حاصل کرنے کی کوشش کرنا تھی تو آئی ایم ایف کی کیوں مانی اور سنی گئی۔ شاید یہ ہماری قومی بد قسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں کبھی بھی اس بات پر دھیان ہی نہیں دیا گیا کہ ہمیں بچتوں کے ذریعے قومی معیشت کو مضبوطی کی راہ پر ڈالنا چاہیے بلکہ ہمارے معاشی منصوبہ سازوں نے ہمیشہ قرضے حاصل کرکے ملکی معیشت کو توانائی فراہم کرنے کی راہ سجھائی اور کوشش کی، ملک کے کمزور معاشی حالات کا اثر اعلیٰ طبقات پر منتقل نہ ہو بلکہ قرضے حاصل کرکے منصوبوں کو جاری و ساری رکھ کر کچھ مخصوص طبقات کا تحفظ کیا جائے حالانکہ جب سے حکومتوں نے قرضے حاصل کر کے معیشت کو استوار کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تو گویا انہوں نے ملک کی معیشت کوآئی سی یو میں پہنچا دیا مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کر کے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی پالیسی دراصل ایک ایسی حکمت عملی تھی کہ جس کی وجہ سے ملک کی انتظامیہ کو تو کسی بھی قسم کی مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ان کے لیے وسائل کا حصول آسان ہو گیا لیکن ان قرضوں کا بوجھ براہ راست عوام پر اس طرح منتقل ہو ا کہ کبھی بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا اور کبھی پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے پوری معیشت اور معاشرتی نظام کی چولوں کو بری طرح ہلا دیا گیا حکمرانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار تھا ہی نہیں کہ قرضوں اور ان کا سود ادا کرنے کے لیے عوام پر مہنگائی کا بوجھ نہ ڈالتے اگر ہمارے حکمران حقیقت پسندی کے ساتھ تجزیہ اور فکر کرتے کہ ہم ایسے کیا اقدامات کریں کہ ملک خود انحصاری کی راہ پر چل پڑے اور عوام کی معاشی اور معاشرتی زندگی پر بھی کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں لیکن افسوس ہم ایسے حکمرانوں سے نہ صرف محروم رہے بلکہ آج بھی محروم ہیں۔
ہمارے معاشی پالیسی سازوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی بھی طرح ملک کی اعلیٰ انتظامی مشینری کی شاہانہ زندگی اور ٹھاٹ باٹ میں کوئی فرق نہ پڑے، کسی کی مراعات اور مالی سہولتیں میں کوئی کٹوٹی نہ ہو حالانکہ خراب تر معاشی حالات کا تقاضا تھا کہ قومی آمدنی اور اخراجات کو متوازن کرکے مستقبل کی منصوبہ سازی کی جاتی۔ ہمارے اعلیٰ طبقات نے ہمیشہ اپنی شاہانہ زندگی کے لیے قرضوں کے حصول کو اولیت دی اور مالیاتی اداروں کے ایما پر عوام پر طرح طرح کے ٹیکس عائد کیے تاکہ ان قرضوں کا اصل اور سود واپس کرنے کا سلسلہ جاری و ساری رہے۔ ہمارے ملک کے معاشی افلاطونوں نے اپنے اقدامات سے ملک کے عوام کو سخت عذاب میں مبتلا کر دیا ایک تو قرض کی اصل رقم کی واپسی اور دوسرے اس پر سود کا ادا کرنا اگر ہمارے مالیاتی افلاطون عوام کو اعتماد میں لے کر ملک کے لیے وسائل حاصل کرنے کی خا طر گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر کے سرمائے کے حصول کی کوشش کرتے تو کم از کم عوام کو قومی سرمائے سے بین الاقومی مالیاتی اداروں کو نہ تو سود کی مد میں کچھ ادائیگیاں کرنا پڑتیں، نہ ہی ملک کے عوام کو دوہرا عذاب جھیلنا پڑتا، ہمارا ملک ایک آزاد اور مضبوط معاشی کردار حاصل کر لیتا اس کے ساتھ ہی ہم بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دبائو سے بھی آزاد ہو جاتے لیکن ہمارے معاشی پالیسی سازوں نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا۔
آج ہمارے ملک میں تقسیم دولت کے نظام کا حال یہ ہے کہ کسی کو اٹھارہ سے بیس ہزار مشاہرہ مل رہا ہے اور کوئی لاکھوں میں کھیل کر ملکی معیشت کے بگاڑ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ہم جب تک ایک شفاف اور مساوی تقسیم دولت کے نظام کی طرف نہیں پلٹیں گے ہمارے ملک کے معاشی اور سماجی نظام میں بہتری کے آثار نمایاں نہیں ہو سکیں گے۔ ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین سرکاری مشینری بشمول ارکان پارلیمان، وزیر اعظم، صدر، گورنر اور وزرائے اعلیٰ، ججوں اور جرنیلوں کو اپنی پُرتعیش زندگی کو خیرباد کہہ کر مسلم خلفاء کی تقلید کرنا ہوگی کہ جنہوں نے بیت المال پر اختیار رکھنے کے باوجود اپنے لیے انتہائی کم وظیفہ حاصل کیا تاکہ عوام کو بہتر طور پر مالی وسائل فرہم کیے جا سکیں اور تاریخ کے ان حکمرانوں کی شاندار و مثالی فکر ہی تھی کہ جنہوں نے انتہائی کمیاب مالی وسائل حاصل کے باوجود ایک ایسی شاندار اور کامیاب حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ حکمرانوں نے عوام کی دیکھ بھال کا اتنا شاندار نظام قائم کر رکھا تھا کہ خود خلیفہ عوامی مسائل حل کیا کرتے تھے، عوامی مسائل سے آگاہی کا اتنا شاندار نظام قائم تھا کہ مسلم اور غیر مسلم سب ہی حکمرانوں کی تعریف کیے بناء نہیں رہتے تھے، عوام کی فکر حکمرانوں کو چین نہیں لینے دیتی تھی۔ مالی وسائل کی تقسیم میں کسی چھوٹے یا بڑے کا تصور نہ تھا کسی عالم کو اس کے علمی مرتبے کی بنیاد پر کوئی زیادہ مراعات حاصل نہ تھیں، کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا تھا، مملکت کے وسائل میں سب ہی کی مساوی حصہ داری تھی۔
مشاہدے میں ہے کہ غیر منصفانہ تقسیم دولت کے نظام نے پورے سماج کو مختلف طبقات اور گروہوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے آج اسی کی بنیاد پر لوگوں کی رہائشی آبادیاں قائم ہیں جہاں اعلیٰ طبقات کے لوگوں کی رہائش گاہیں ہیں وہاں ایک محدود اور کم آمدنی وا لا فرد رہائش اختیار کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا اس صورتحال نے امیری اور غریبی کے فرق کو نمایاں کرنے میں بڑا ہم کردار ادا کیا ہے، ہمارے حکمرانوں کی بے حسی نے ایک عام آدمی کی زندگی مشکل بنا دی ہے حکمران ایک عام آدمی کے سوا سب کے مسائل حل کرنے میں شب روز مصروف ہیں کسی کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ محدود آمدنی والوں کے لیے وہ وقت کی روٹی حاصل کرنا کتنا دشوار ہے؟ یہ کیسی حکمت عملی ہے کہ آئے دن نہ صرف اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ پٹرول اور بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے عام آدمی کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں بے شمار افراد قیمتوں میں ہونے والے ہوش ربا اضافے کی وجہ اتنے پریشان ہوگئے ہیں وہ بلڈ پریشر اور دل کے عارضہ کا شکار ہوچکے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو آئی ایم ایف کی تو پروا ہے لیکن یہ اپنے ملک کے عوام کے حال اور مستقبل سے بے بہرہ ایوان اقتدار میں ایک دوسرے کی مدد کے لیے صبح و شام اجلاس کرتے دکھائی دیتے ہیں، یا مخالفین کے خلاف اپنی سیاسی حکمت عملی پر بیٹھکیں لگاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ان کا یہ اقتدار چند روزہ ہے۔ عوام اس وقت بے چین ہیں انہیں ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جو ان کا دکھ درد سمجھ سکتے ہوں ان کے مسائل حل کر سکتے ہوں انہیں سکون کی زندگی فراہم کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں جو عوام کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد جانتے ہوں جو عوامی بھلائی اور بہتری کے لیے بے قرار رہتے ہوں نہ کہ طرح طرح کی مافیائوں پر دست شفقت رکھتے ہوں جو ذاتی منفعت کے کسی کاروبار کے شریک نہ ہوں تا کہ دوران اقتدار اور اقتدار جانے کے بعد بھی ان پر نہ تو لینڈ مافیا کی سرپرستی کا الزام آئے اور نہ منی لانڈرنگ کا ہمارا اور با اختیار طبقات کے حوالے سے اس قسم کی سرگوشیاں سننے کا متحمل نہیں ہو سکتا اب اس ملک اور اس کے عوام کو ضرورت ہے ان حکمرانوں کی جو سود کی لعنت کے خلاف کھڑے رہنے کو اہم جا نتے ہوں جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے جکڑے ہوئے سود کے نظام سے ملک کو نجات دلا کر قوم کو غربت و مہنگائی سے نجات دلانے کو اہم سمجھتے ہوں اور ملک میں دولت کے مساوی تقسیم کے نظام کو رائج کرنے کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہوں۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکر ہے کہ ہم اپنے قومی مستقبل کو سامنے رکھتے ہو ئے ایسے دانشمندانہ فیصلے کریں کہ آنے والا وقت قومی زندگی کے لیے فلا ح و خیر کا باعث بن جائے۔