آئی ایم ایف کی تازہ شرائط

593

حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف سے 7 ویں اور 8 ویں مشترکہ جائزے کے لیے ’’میمورینڈم آف اکنامک اینڈ فنانس پالیسیز کا مسودہ موصول ہوگیا ہے۔ اس جائزے کی بنیاد پر وزیراعظم اور وزیرخزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کو ایک ارب 90 کروڑ ڈالر کی 2 قسطوں کے اجرا کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ آئی ایم ایف نے 2 جائزوں یعنی 7 ویں اور 8 ویں جائزوں کی تکمیل کو یکجا کیا ہے جو ابھی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی جانب سے بھیجے گئے مسودے میں بیان کردہ شرائط کی تفصیلات سے تو گریز کیا ہے البتہ اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ’’نادہندہ‘‘ ہونے کے خطرے سے نکل گیا ہے۔ ’’ڈیفالٹ‘‘ ہونے کے خطرے کا تعلق پاکستان میں زرمبادلہ یعنی ڈالر کے ذخائر کی موجودگی سے ہے۔ ایک طرف عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے کمیونسٹ ایمپائر سوویت یونین کے انہدام کے بعد عالمی معیشت پر اپنی جابرانہ اور سامراجی گرفت اور شکنجے کو سخت کرنے کے لیے جو ادارے بنائے اور عالمی مالیاتی قوانین میں تبدیلیاں کیں ان میں ایک ادارہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن بھی ہے جس کی وجہ سے پاکستان جیسے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے غریب اور ترقی پزیر ممالک کو درآمدی اور صارفانہ معیشت میں تبدیل کردیا گیا اور ان کے قیمتی وسائل پر کم قیمت کے ساتھ اجارہ داری حاصل کرلی گئی۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی سرمایہ کاری کے جو معاہدے ہوئے ان کی شرائط میں پاکستان کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ توانائی اور معدنیات کے معاہدوں کو اس کی شہادت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ انہی عالمی معاہدوں کی وجہ سے توانائی کا مسئلہ جو پاکستان کے اقتصادی مسائل میں سے ایک مسئلہ تھا اور وہ ناقابل حل نہیں تھا لیکن اسے سب سے بڑا اور ناقابل حل مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر قوم کو اس حوالے سے خوف زدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ جولائی کے مہینے میں پھر لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوگا۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ یہ نہیں ہے کہ بجلی کی پیداوار کم ہوگئی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلسل ایندھن کی قیمت میں اضافہ کرکے بجلی کی پیداوار کے نجی اداروں کو مزید پیسے دیے جاتے ہیں اور وہ اپنے منافع میں اضافے کے لیے پیداوار کم کردیتے ہیں۔ یوں اس کی قیمت عوام سے وصول کی جاتی ہے اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ عوام کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ وہ احتجاج پر مجبور ہوتے ہیں تو ریاستی ادارے اور پولیس عالمی سامراجی اداروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اپنی ہی قوم کے باشندوں کی کمر پر ڈنڈا رسید کرتے ہیں، آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کرتے ہیں، پاکستان میں موجودہ اقتصادی بحران اصل سبب آئی ایم ایف اور عالمی اداروں کی جانب سے مسلط کردہ ’’مانیٹری پالیسی‘‘ ہے جو روپے اور ڈالر کی شرح کا فیصلہ کرتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی داخلی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے برآمدات پر اثر پڑتا ہے اور درآمدی اشیا بھی مہنگی ہوجاتی ہیں۔ اس شیطانی چکر کا نتیجہ ایک ہے اور وہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، اس شیطانی چکر نے اللہ کی طرف سے عطا کی گئی نعمتوں سے قوم کے استفادے کو ناممکن بنادیا ہے اور قوم کو مجبور کردیا ہے کہ وہ صرف ایک ارب ڈالر کے لیے اپنی آزادی اور خودمختاری کا سودا کرلے اور عالمی سامراج کے تمام احکامات کو تسلیم کرلے، غضب خدا کا ان غلام حکمرانوں کی وجہ سے پٹرول ڈھائی سو روپے فی لیٹر ہوگیا جسے 3 سو روپے فی لیٹر سے زیادہ ہونا ہے اور اس کے لیے صرف ایک ماہ کی شرط عائد کی گئی ہے۔ ڈالر کی شرح 207 روپے پر رُک گئی ہے تو ہمیں خوش خبری سنائی جارہی ہے۔ ان فیصلوں کی وجہ سے عام آدمی کے لیے زندگی عذاب بن چکی ہے، لیکن ابھی یہ سلسلہ رکا نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ نے ہمارے ایک معاصر اخبار کے وقائع نگار کو حاصل معلومات کے حوالے سے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنی شرائط پر بس نہیں کیا ہے بلکہ مزید حکم نامے بھی آگئے ہیں۔ بجلی اور پٹرول مزید مہنگے کیے جائیں گے اور پٹرول کی قیمت کے تعین میں حکومتی کردار کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ یعنی اب عوام اپنے حکمرانوں کو منتخب کریں گے لیکن وہ آئی ایم ایف کے غلام ہوں گے۔ تازہ حکم نامے کے تحت 50 روپے فی لیٹر پٹرولیم لیوی لگائی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے قومی اسمبلی میں پٹرولیم لیوی آرڈی نینس 1961ء میں ترمیم کا مسودہ پیش کردیا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں 50 روپے فی لیٹر اضافے کے حکم پر عمل درآمد کے لیے ایک ماہ درکار ہے۔ پٹرول پمپ پر روزانہ کی بنیاد پر قیمت میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس وقت حکومت پٹرول کی قیمت کا تعین 15 دن میں کرتی ہے۔ نئے حکم کے مطابق پٹرول کی قیمتوں کا تعین روزانہ کی بنیاد پر ہوگا۔ ان احکامات پر عمل کے بعد آئی ایم ایف قرض کی نئی قسط کے اجرا کی درخواست کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ میں پیش کرے گا۔ بدقسمتی سے حکومتی حلقوں کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط پر مزاحمت کے آثار نظر نہیں آتے۔