قیامت سے پہلے

996

حصہ دوم
قیامت سے پہلے انسانی معاشرے میں اللہ کی زمین پر جو خرابیاں پیدا ہوں گی اور پھیل جائیں گی، احادیثِ مبارکہ کی روشنی میںپچھلے کالم میں ہم نے اُن کو بیان کیا ہے، مگر اس عنوان پر احادیثِ مبارکہ بکثرت ہیں، اُن میں بعض امور کا تکرار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ایک خطیب یا مُصلِح یا واعظ ایک عنوان پر مختلف مجالس میں گفتگو کرے تو ہر مجلس میں کوئی نئی بات بھی آجاتی ہے اور بعض گزشتہ باتوں کا تکرار بھی ہوتا رہتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مجلس میں سامعین ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے، لہٰذا نئے شرکاء کے لیے انہی باتوں کا ابلاغ دین کی دعوت و حکمت کا تقاضا ہوتا ہے، اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تئیس سالہ نبوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزولِ وحی اور اپنے حبیبِ مکرم ؐ کو امورِ غیبیہ عطا کرنے کا سلسلہ جاری رہا، سطورِ ذیل میں ہم چندنئی باتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں:
سابق امتوں کی پیروی: آپؐ نے فرمایا: ’’تم ضرور پچھلی امتوںکے طریقوں کی مِن وعَن پیروی کروگے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر، حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے، تو تُم بھی داخل ہوگے، ہم نے عرض کی: یا رسول اللہؐ! آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں، آپؐ نے فرمایا: اور کون، (بخاری) ‘‘۔
وقت سمٹ جائے گا: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ زمانہ قریب ہوجائے گا، سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتے کے برابر، ہفتہ ایک دن کے برابر، دن ایک ساعت کی مانند گزر جائے گا اور ساعت آگ کی ایک چنگاری کی مانند پلک جھپکنے میں گزر جائے گی، (ترمذی)‘‘۔ وقت کے سمٹائو کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ فاصلے جو ماضی میں مہینوں اور برسوں میں طے ہوتے تھے، اب گھنٹوں میں طے ہورہے ہیں، وہ پیغام جسے پہنچانے میں دن ہفتے اور مہینے لگ جاتے تھے، اب لمحوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اگر ہم مشرق سے مغرب کی جانب سفر کریں اور عشاء کی نماز کراچی میں پڑھ کر جائیں تو اگلے دن کی فجر کی نماز نیو یارک میں جاکر پڑھ سکتے ہیں، حالانکہ کراچی سے نیو یارک کا فاصلہ کم وبیش بارہ ہزار کلومیٹر ہے، لیکن اگر ہم مغرب سے مشرق کی جانب سفر کریں تو معاملہ اس کے برعکس ہوجاتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تکلیف کے لمحات صدیوں کی مانند بھاری محسوس ہوتے ہیں اور راحت کے لمحات کے بارے میں لگتا ہے کہ پل بھر میں گزر گئے۔
اقدار بدل جائیں گی: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ زُہد روایت اور ورع وتقویٰ تصنُّع اور بناوٹ بن جائے گا‘‘، (حلیۃ الاولیاء)، ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ بے وقوفوں کی اولاد دنیا میں سب سے زیادہ خوش نصیب بن جائیں گے‘‘۔ (ترمذی)
اچانک اموات: نبیؐ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ مساجد کو گزرگاہ بنالیا جائے گا اور اچانک موت کے واقعات زیادہ ہونے لگیں گے‘‘۔ (المعجم الاوسط) آج کل بوجوہ ہارٹ اٹیک، برین ہیمریج کے واقعات ماضی کی نسبت زیادہ ہورہے ہیں، اُس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چکنائی سے معمور غذائوں اور کئی طرح کے کیمیکلز کی وجہ سے جدید دوائوں کے ذیلی اثرات (Side Effects) کی حامل ہوجاتی ہیں، یعنی اگر کوئی دوا ایک بیماری کا ازالہ کرتی ہے تو دوسری بیماری کا سبب بن جاتی ہے، اسی لیے ان دوائوں کے نقصانات کے ازالے کے لیے دوسری دوائیں شامل کی جاتی ہیں، جنہیں طبِ قدیم کی اصطلاح میں ’’بَدرَقَہ‘‘ کہتے ہیں۔
ہم جنس پرستی: طویل حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کا دور دورہ ہوگا، مرد مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے اپنی جنسی خواہش پوری کریں گی، زنا کی کثرت ہوگی‘‘۔ اب تو مغرب میں نسب بھی محفوظ نہیںہیں، ایک حدیث میں فرمایا: ’’باندی اپنے آقاکو جنے گی‘‘۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ مغرب میں نکاح اور طلاق کو مشکل بنادیا گیا ہے اور جوان جوڑے رسمی شادی کے بغیر جنسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں، کرائے کی ماں برائے خدمت دستیاب ہوتی ہے، اس لیے دستاویزات میں ماں کا نام ضروری قرار دیا گیا ہے، کیونکہ بعض لوگوں کو باپ کا نام معلوم ہی نہیں ہوتا اور اب تو مردوں کی ہم جنس پرستی، عورتوں کی ہم جنس پرستی، متضاد جنس پرستی سے آگے بڑھ کر LGBT+ گروپ بنالیا گیا ہے، یعنی اب یہ آوارگی مصنوعی جنسی اعضاء سے آگے بڑھ کر حیوانات تک وسیع ہوجائے گی۔
دین پر چلنا دشوار ہوجائے گا: اسلام کی رُو سے امت اور انسانیت کی اصلاح مسلمانوں کی اجتماعی ذمے داری اور فرضِ کفایہ ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جسے تمام لوگوں کی (ہدایت) کے لیے ظاہر کیا گیا، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، (آل عمران: 110)‘‘۔ پھر جب قرآنِ کریم کی یہ آیت سامنے آئی: ’’اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، جب تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی سے تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچے گا‘‘، (المائدہ: 105)، بعض حساس صحابہ کرام کو اس پر تشویش لاحق ہوئی، کیونکہ اس کے ظاہری معنی سے کوئی یہ تاثر لے سکتا تھاکہ دوسروں کا غم پالنا چھوڑو، بس اپنی فکر کرو، جبکہ اسلام تو پوری انسانیت کی اصلاح کو مسلمانوں کی اجتماعی ذمے داری قرار دیتا ہے، چنانچہ ابو امیہ شعبانی روایت کرتے ہیں: میں نے ابوثعلبہ خُشَنِی سے مذکورہ بالا آیت کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: (یہ بات مجھے بھی کھٹکی تھی اور) میں نے اس کی بابت رسول اللہؐ سے پوچھا تھا:
آپؐ نے فرمایا: (نہیں)، بلکہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو، حتیٰ کہ جب تم دیکھو: کمینوں کی اطاعت کی جارہی ہو اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی جارہی ہے، دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جارہی ہے، اور (دلیلِ حق سے اعراض کر کے) ہر شخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے، تو پھر تم اپنی فکر کرو اور لوگوں کا خیال چھوڑ دو، کیونکہ اب تمہارے آگے صبر کے دن آنے والے ہیں، پس ایسے مشکل وقت میں صبر کر کے دین پر قائم رہنا اس قدر مشکل ہوجائے گا جیسے آگ کے کھولتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں لینا، پس اُس وقت جو دین پر عمل پیرا رہے گا، اُسے پچاس افراد کے برابر ثواب ملے گا، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کیا اُس دور کے پچاس افراد کے برابر، آپؐ نے (صحابہ سے) فرمایا: تمہارے پچاس افراد کے برابر، ( ابودائود)‘‘۔
عیسائیوں کاغلبہ: مستورِد القرشی نے سیدنا عمرو بن عاص کی موجودگی میں کہا: میں نے رسول اللہؐ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’قیامت سے پہلے رومیوں (مسیحیوں) کی کثرت ہوگی، اُن سے عمرو نے کہا: تمہیں معلوم ہے کیا کہہ رہے ہو، انہوں نے کہا: وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہؐ سے سنا ہے، سیدنا عمرو نے کہا: اگر تم ٹھیک کہتے ہو، تو اُن میں چار خصلتیں ہیں: وہ آزمائش کے وقت سب لوگوں سے زیادہ حلیم ہیں، مصیبت کے وقت بہت جلد اس کا تدارک کرتے ہیں، شکست کھانے کے بعد جلد دوبارہ حملہ کرتے ہیں، مسکینوں، یتیموں اور کمزوروں کے لیے بہتر ہیں، پھر آپؐ نے ان کی پانچویں اہم خصلت بھی بیان فرمائی کہ سب سے زیادہ بادشاہوں کو ظلم سے روکنے والے ہیں‘‘۔ (مسلم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اُخروی نجات کا مدار تو ایمان واعمالِ صالحہ پر ہے، لیکن دنیا میں ملّتیں اپنے کرتوتوں کے سبب زوال سے دوچار ہوتی ہیں، آج یہود ونصاریٰ کے غلبے اور مسلمانوں کے زوال کے اسباب ہمارے سامنے ہیں۔
بارشوں کا بے مصرف ہونا: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’ قحط یہی نہیں کہ بارش نہ ہو، بلکہ یہ بھی قحط ہے کہ خوب بارش ہو اور زمین کوئی چیز نہ اگائے‘‘۔ (مسلم) اس کی ایک صورت مشاہدے میں آتی ہے کہ شدید بارشوں کے سبب بعض اوقات سیلاب آتے ہیں تو سب کچھ بہاکر لے جاتے ہیں اور بارش کے بعد جس خوشحالی کی توقع کی جاتی ہے، لوگ اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔
علمائے حق کا اٹھ جانا: حدیثِ مبارک میں ہے: ’’عبداللہ بن عمرو بن العاص نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کو (محسوس طریقے سے) کوئی چیز اٹھتی ہوئی محسوس ہو، بلکہ علمائے حق کے اٹھ جانے سے علم اٹھتا چلا جائے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالمِ ربانی باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنائیں گے، پھر اُن سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ جہل پر مبنی فتوے دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔ (بخاری) حکیم بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہؐ سے شر کی بابت پوچھا: آپؐ نے تین بار فرمایا: مجھ سے شر کے بارے میں نہ پوچھو، خیر کے بارے میں پوچھو، پھر فرمایا: سب سے بڑی برائی برے علماء اور سب سے بڑی خیر اچھے علماء ہیں‘‘۔ (سنن دارمی) کیونکہ لوگ دین کی نسبت سے علماء کی تکریم کرتے ہیں، ان کی بات کا اعتبار کرتے ہیں، سو اُن پر دیگر طبقات کے مقابلے میں زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، وہ اپنے آپ کو اسلام کے معلّم کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن اگروہ اس معیار پر پورے نہیں اترتے تو یہی وجہ فساد ہے، آپؐ نے علمائے یہود کی بابت فرمایا:
’’پہلے پہل بنی اسرائیل میں خرابی نے اس طرح نفوذ کیا کہ جب ایک شخص دوسرے کو برائی میں مبتلا دیکھتا تو کہتا: یہ کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو، یہ کرتوت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے، پھر اگلے دن ملتا تو اسے اُس کام سے نہ روکتا بلکہ اس کا ہم نوالہ وہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا، پھر جب اُن کے کرتوت اسی طرح ہوتے چلے گئے، تو (اس کے وبال کے طور پر) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو یک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا، پھر آپؐ نے المائدہ کی آیات 78 تا 80 تلاوت کرکے فرمایا: ہرگز نہیں! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اور تم ضرور ظلم کا راستہ روکو گے اور لوگوں کو حق قبول کرنے پر مجبور کردو گے‘‘۔ (ابودائود) قارئین مندرجہ بالا تین آیات کا ترجمہ قرآنِ کریم میں دیکھ لیں۔