وفاقی شریعت عدالت کا امتناعِ ربا کا فیصلہ

595

ابتدائی طور پر وفاقی شریعت عدالت نے ’’امتناعِ ربا (To Declare Interest unlawful)‘‘ کا فیصلہ 1992میں آیا تھا، پھر اس کے بعد عدالت عظمیٰ شریعت اپیلٹ بنچ میں اس کے خلاف اپیل ہوئی اور 1999میں عدالت عظمیٰ شریعت اپیلٹ بنچ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا اور حکومت کو حکم جاری کیا کہ 30جون 2002 تک نظامِ بینکاری ومعیشت کو غیرسودی بنایا جائے۔ پھر 2002 میں اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے عدالت عظمیٰ شریعت اپیلٹ بنچ کی تشکیلِ نو کی، مانچسٹر برطانیہ سے علامہ خالد محمود کو درآمد کرکے اُن کو اور ڈاکٹر رشید احمد جالندھری کو عدالت عظمیٰ شریعت اپیلٹ بنچ کا رکن بنایا اور پھر امتناعِ ربا کے فیصلے کو دوبارہ وفاقی شریعت عدالت کی طرف نظرِ ثانی کے لیے بھیج دیا، یعنی Refer Back کردیا۔ پھر وفاقی شریعت عدالت 20سال تک مرغی کے انڈوں کی طرح اسے سینچتی رہی تاآنکہ آخرِ کار 28اپریل 2022 کو وفاقی شریعت عدالت نے ایک بار پھر اپنے سابق فیصلے کو برقرار رکھا اور حکومت کو ’’ربائی نظامِ معیشت‘‘ کو تبدیل کرنے کے لیے پانچ سال کی مدت دی، نیز فیصلے کو واپس وفاقی شریعت عدالت کی طرف Refer Back کرنے کے حوالے سے عدالت عظمیٰ شریعت اپیلٹ بنچ نے جو تحفظات پیش کیے تھے، اُن سب کو ردّ کردیا اور اصل فیصلے کو برقرار رکھا۔
وفاقی شریعت عدالت نے قرار دیا ہے کہ لاربائی بینکنگ 2002 کے مقابلے میں آج دنیا میں نہ صرف مسلم ممالک میں بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر قابلِ قبول بھی ہے اور قابلِ عمل بھی ہے۔ 2008ء کی کساد بازاری (Recession) کے بعد تو اِس کی قبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، یہاں تک کہ اُس وقت کیتھولک مسیحیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا پاپائے اعظم نے L’OSSERVATORE ROMANO کی 6مارچ 2009 کی اشاعت میں ایک باقاعدہ بیان دیا تھا: ’’دنیا آئندہ اِس طرح کے مالیاتی بحران سے محفوظ رہنا چاہتی ہے اور اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کے اعتماد کو دوبارہ سے بحال کرنا چاہتی ہے، تو پھر اِسے اَخلاقی بنیادوں پر قائم اسلامی اُصولوں پر بینکاری نظام کو فروغ دینا پڑے گا‘‘۔ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران اور کساد بازاری کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ربائی بینکنگ کی بنیاد مستحکم اثاثوں پر نہیں ہوتی، چنانچہ اُس مالیاتی بحران کے بعد فرانس، برطانیہ اور اسپین جیسے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کے بعض طبقات نے اپنی حکومت سے اِسلامی بینکاری نظام کو قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، لہٰذا اسلامی بینکاری دنیا کی بھی ضرورت بن چکی ہے۔ پس لازم ہے کہ بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایکٹ 1956 کے فریم ورک میں لاربائی بینکنگ کے نفاذ کے لیے قانونی سہولتیں فراہم کی جائیں، نیز وفاقی شریعت عدالت نے قرار دیا ہے کہ شخصی قرض اور کاروباری قرض میں فرق محض ایک فریب ہے، سود کی ہر صورت کا ایک ہی حکم ہے۔ حکومت اپنی ضروریات کے لیے داخلی اور خارجی ذرائع سے آئندہ جو رقوم لے، اس کے لیے لاربائی پروڈکٹ بنائے، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک Sharia’h Compliant (شریعت کے مطابق) طریقۂ کار کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، حتیٰ کہ چین بھی سی پیک کے لیے اس طرف پیش قدمی کے لیے تیار ہے۔
جب حکومت اپنی ضروریات کے لیے داخلی اور خارجی ذرائع سے مالی وسائل لے گی اور وہ شرعی احکام کے مطابق ہوں گے تو یقینا وہ اپنی نوعیت کے مطابق اسلامی تمویل کے طریقوں پر ہوں گے اور وہ مالی وسائل پیداواری اور نفع بخش منصوبوں پر لگیں گے توحکام انہیں اپنی عیاشیوں اور فضول خرچیوں میں استعمال نہیں کر پائیں گے۔
وفاقی شریعت عدالت نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ادائیگی میں تاخیر یا اس طرح کے دیگر معاملات میں Interest کے لفظ کو ختم کرے، نیز وفاقی اور صوبائی حکومتیں 31دسمبر 2022 تک تمام ضروری قانونی اقدامات کریں اور تمام مالیاتی قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تبدیل کریں۔ وفاقی شریعت عدالت نے ملک کے بینکاری اور مالیاتی نظام کو شریعت کے مطابق بنانے کے لیے اٹارنی جنرل کی درخواست پر حکومت ِ پاکستان کو پانچ سال کا مناسب وقت دیا ہے۔ وفاقی شریعت عدالت دستور کے آرٹیکل 203-D(1) کے تحت اس کا مکمل اختیار رکھتی ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کون سا قانون خلاف ِ اسلام ہے۔ وفاقی شریعت عدالت نے صدر اور حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ قوانین میں مناسب ترامیم کریں، نیز یہ کہ وفاقی حکومت یا کوئی پارٹی دستور کے آرٹیکل 203-Fکے تحت اس فیصلے کے اجرا کے چھے ماہ کے اندر اگر کوئی درخواست دائر کرتی ہے، تو اس کا فیصلہ ساٹھ دن میں صادر کرنا ہوگا۔
ہماری نظر میں حکومت ِ پاکستان کی ذمے داری ہے کہ فوری طور پر اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ایک با اختیار Steering Committee بنائے جو یکسو ہوکر اور کُل وقتی طور پر کام کرے، حکومتی پیش رفت کا مسلسل جائزہ لے اور اس راہ میں کوئی حقیقی یا فنی رکاوٹیں حائل ہوں تو اُن کا حل پیش کرے۔ علاوہ ازیں مالیاتی اداروںسے وابستہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے وہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اِس فیصلے کو غنیمت جانتے ہوئے لاربائی بینکاری نظام کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں اور اِس مستحسن فیصلے کے خلاف کوئی بھی اپیل میں جانے کی جسارت نہ کرے، جیساکہ 1992ء اور 1999ء کے فیصلوں پر ہوچکا ہے۔ اگر کوئی ایسی جسارت کرتا ہے، تو اسے قرآن وسنت اور دستورِ پاکستان سے انحراف سمجھا جائے گا، کیونکہ آئین کے آرٹیکل 38-F میں واضح طور پر لکھا ہے: ’’جتنی جلدی ہوسکے ملک سے ربائی مالیاتی نظام کو ختم کیا جائے‘‘۔ اب وفاقی شریعت عدالت کے اِس فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے والے شخص اور ادارے کو انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے گا۔
سرِ دست خالص اسلامی نظامِ معیشت کی منزل کافی دور ہے، کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی بنیادی ساخت ربائی بینکنگ کے لیے ہے، صرف اس کے تحت ایک اسلامک بینکنگ ڈیپارٹمنٹ بنادیا گیا ہے، اِسی طرح بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962ء (BCO 1962) میں ضروری ترمیم کرکے اِسلامی بینکاری نظام کے لیے گنجائش پیدا کی گئی اور اِسی ترمیم کی بنیاد پر موجودہ اسلامی بینکاری کا پورا ڈھانچہ قائم کیا گیا۔ اگرچہ اسلامی بینکاری کے آغاز کے لیے یہ ایک احسن اقدام تھا، تاہم اِسی پر اکتفاء کرنے کی صورت میں ملک میں مکمل لاربائی بینکاری ومالیاتی نظام کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ علاوہ ازیں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR)کے بعض مروّجہ قوانین میں اِسلامی بینکاری کی ساخت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فوری تبدیلی کی اشد ضرورت ہے، وگرنہ اِسلامی بینکوں کی کئی پروڈکٹس کو اُن اصل روح کے مطابق نافذ کرنا مشکل ہوتاہے، خاص طور پر ڈبل ٹیکس کا مسئلہ انتہائی گمبھیر ہے، مثلاً: مرابحہ اور شرکت ِ متناقصہ (Diminishing Musharakah) وغیرہ کے لیے ایف بی آر اور صوبوں کے مالیاتی محکموں کو خصوصی قوانین بنانے تھے، جو نہیں بنائے گئے۔ یعنی ہونا یہ چاہیے تھا کہ جائداد کی ملکیت باقاعدہ بینک کے نام پر منتقل ہوتی اور اس مرحلے پر قانون کی رُو سے جو ڈیوٹی وغیرہ عائد ہوتی ہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
مفتی منیب الرحمن
اسلامی بینکوں کو اُس سے استثناء دیا جاتا اور جب اس جائداد کی ملکیت بینک اپنے کلائنٹ کے نام منتقل کرتا ہو، تو قانون کی رُو سے واجب الادا ڈیوٹی وصول کرلی جاتی اوراس صورت میں ریاست اور حکومت کو کوئی مالی نقصان نہیں ہوتا، کیونکہ اگر ایک ہی چیز پر دو مرتبہ پوری ڈیوٹی عائد کردی جائے، تو پھر مارکیٹ سے مسابقت مشکل ترین ہوجاتی ہے، اس لیے حکومتی اداروں کی ذمے داری ہے کہ اسلامی بینکوں کو اس حوالے سے سہولتیں (Facilitation) فراہم کریں، کیونکہ یہ دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 31کا تقاضا بھی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اِسلامک بینکنگ ڈیپارٹمنٹ نے اِسلامی بینکوں کے اِسٹاف کی ٹریننگ کے لیے Enhanced Training & Capacity Building Measures For Islamic Banking Institutions کے عنوان سے ایک باقاعدہ گشتی مراسلہ جاری کیا ہے، تاہم اسلامی بینکوں میں اسٹاف کی ہائیرنگ کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین پر بھی نظرِ ثانی کی جائے اور ایسے قوانین بنائے جائیں، جن کے تحت اسٹاف ہائر کرنے سے پہلے ان کی ذہن سازی کی جائے اور صرف اُن لوگوں کو اسٹاف میں شامل کیا جائے، جو ذہنی طور پر لاربائی نظامِ بینکاری سے مطابقت رکھتے ہیں، حلال وحرام میں تمیز رکھتے ہیں، وہ صرف بے روزگاری اور حالات کے جبر کے تحت یا پرکشش مشاہروں اور مراعات کی خاطر اسلامی بینکوں کا حصہ نہ بنیں، بلکہ اپنی ترجیحِ اول کے تحت اسے اختیار کریں۔ اس عدمِ احتیاط کا ثبوت یہ ہے کہ بڑی تعداد ایسے بینکاروں کی مل جائے گی جو پہلے سودی بینک میں کام کر رہے تھے، پھر اسلامی بینک میں چلے آئے اور پھر کہیں سے بہتر پیشکش ملی تو دوبارہ سودی بینک میں چلے گئے، اس کی نمایاں مثال اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق ڈپٹی گورنر جنابِ سعید احمد کی تھی، کہ وہ اداروں میں جاکر اور علماء کے ساتھ اجلاس کر کے اسلامی بینکاری کی ترغیب دیتے رہے اور پھر اچانک نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر بن کر چلے گئے، جو ایک سودی بینک ہے، یہ ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر ہم نے مثال پیش کی ہے، یعنی غلے کے انبار سے ایک مٹھی لے کر اس کا جائزہ لینا۔
وفاقی شریعت عدالت کے اِس فیصلے پر لفظاً ومعنًی عملدرآمد کی صورت ہی میں ملک میں مکمل لاربائی بینکاری نظام قائم ہوگا۔ لوگوں کے پاس غیرسودی بینکوں کی طرف رجوع کرنے کا آپشن ہی نہیں رہے گا، جیسا کہ اس وقت ہے، کیونکہ بہت سے سودی بینک اور انشورنس کمپنیاں بحیثیت ِ مجموعی ربائی بینکاری کو جاری رکھتے ہوئے صرف اپنی چند برانچیں مختص کر کے، جنہیں Windows سے تعبیر کیا جاتا ہے، جزوی طور پر اسلامی بینکاری کررہے ہیں اور یوں ایک ہی ادارے میں بیک وقت سودی اور غیر سودی دونوں طرح کا کام ہورہا ہے، یہ اِسلامی نظامِ معیشت و بینکاری کی حقیقی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
اسلامی بینکوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ مقدار پر معیار کو ترجیح دیں، افقی سطح پر توسیع کوترجیح دینے کے بجائے عمودی سطح پر معیار کو ترجیح دیں، مشتبہات سے بچیں۔ جن مفتیانِ کرام نے ماضی میں بعض امور پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان کے ساتھ مشترکہ اجلاس منعقد کریں اور ’’تَعَاوُنْ عَلَی الْبِر‘‘ کے جذبے کے تحت ایک دوسرے کے علمی تفقّہ اور تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے بہتر متبادلات کی طرف آئیں یا اسلامی بینکوں میں جو پروڈکٹس رائج ہیں، اُن کو اور زیادہ شفاف بنائیں تاکہ تمام علماء اور مفتیانِ کرام اس کے پشتیبان بنیں، صنعت کاروں اور کارپوریٹ کلائنٹ کی بھی ذہن سازی کی ضرورت ہے۔