فلاحی بجٹ کا تصور

285

تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے لیے نئے کا سال میزانیہ بنانا کسی چیلنج سے کم نہیں عوام غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے ہیں، عوام آج تک یہی سمجھتے رہے کہ عمران خان کی حکومت کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا رہا ہے جب کے بے شمار کی رائے ہے کہ خان صاحب نے ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے خاصے اقدامات کیے لیکن ان کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے احساس پروگرام، شیلٹرز ہوم وغیرہ ان کے معروف منصوبے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ نہ سوچا کہ بیورو کریسی کی مدد سے چلائے جانے والے منصوبے کبھی شفاف اور سود مند ثابت نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان منصوبوں کو بنانے اور چلانے والوں نے نہ صرف خود فائدے حا صل کیے بلکہ ان کے اقربا بھی ان سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت حقیقی معنوں میں ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا عزم و ارادہ رکھتی ہے تو اس کو بنیادی پالیسیوں میں بہت سی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ پہلے تو ہمارے حکمرانوں کو یہ اچھی طرح جان اور سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا ملک بائیس کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس ملک کے ایک ایک فرد کی نگہبان بن کر ان کے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے شفاف انتظامات کرے لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ سے یہ ہوتا آیا ہے کہ حکمرانوں نے بجٹ میں عام آدمی کو نظر انداز کر کے ہمیشہ سرکاری ملازمین کی فکر کی ہے، پنشن میں اضافے کو اہم جانا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے ملک اور قوم کے سرمایہ کا غیر ذمے دارانہ استعمال کیا اور اس کے علاوہ حکمرانوں نے کبھی بھی سرکاری ملازمین کو اس بات کا ہلکا سا بھی احساس دلانے کی کوشش نہیں کہ ہماری معیشت قرضوں کے بوجھ کا شکار ہے اور ان کی تنخواہوں اور پنشن میں سالانہ اضافے کا بوجھ ہر سال قرضدار قوم کے کاندھوں پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ قوم کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اراکین اسمبلی بھی کسی سے پیچھے نہیں انہیں بھی اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ وہ ایک قرض دار ملک کی پارلیمان کے رکن ہیں اور ان کا یہ حق نہیں کہ قوم کو زیر بار کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
عوام کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جو دن رات محنت کرکے قومی وسائل میں اضا فے کے لیے ہمہ وقت مصروف بھی ہے اور انہیں حکمرانوں کی طرف سے کسی بھی قسم کی سہولت بھی نہیں اور ایک مخصوص تعداد وہ ہے جو قومی وسائل بے تحاشا استعمال کرنے میں مصروف ہے قومی خدمت کہ نام پر تنخواہوں اور مراعات سے لطف اندوز ہو رہی ہے اور اس کو اپنا حق سمجھتی ہے، ہر قسم کی مراعات پر بھی اپنا حق جانتی ہے دوسری طرف حال یہ ہے کہ وہ جو قومی وسائل میں دن اور رات اضافہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں انہیں صحت کی بہتر سہولتیں حاصل ہیں اور نہ ٹرانسپورٹ کی، ان کے بچے بھی بہتر تعلیم سے محروم ہیں۔ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ ہمارے سابق وزیر اعظم عمران خان کی شاہ خرچی کا ذکر زبان زدعام ہے کہ بنی گالہ سے اپنے دفتر تک آنے کے لیے ہیلی کاپٹر کا مہنگا سفر کرنے کو قومی خدمت سمجھ رہے تھے اور کبھی یہ تک سوچنے کی کوشش نہ کی کہ ہماری قوم بری طرح قرضوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اور انہیں قوم کی غربت کا سوچتے ہوئے اس قسم کے سفر سے گریز کرنا چاہیے تھا ان کی اس غیر ذمے داری سے قومی خزانے کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی نئی نظیر پیدا ہوئی اس کے علاوہ خان صاحب قومی خزانے کو اپنی ذات پر لٹاکر بھی اپنے آپ کو اس قوم کا ہمدرد ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے بیانیے کو تسلیم کرنے والے اور ان کی حمایت میں کمر بستہ ہونے والے ان سے یہ سوال کیوں نہیں پوچھتے کہ انہوں نے قومی خزانے کا اتنی بے دردی سے استعمال کرکے کون سی قومی خدمت کی ہے۔
عصر حاضر کے حکمرانوں اور ان کے معاشی منصوبہ سازوں سے دست بستہ عرض ہے کہ قومی بجٹ سازی کرتے وقت وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کا بنایا ہوا بجٹ عوام دوست اور مکمل فلاحی ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب بجٹ بناتے وقت ایک عام آدمی کی ضرورتوں کا بھر پور خیال رکھا جائے، گیس، بجلی، پٹرول کی قیمتوں کو مستحکم کیا جائے تاکہ ایک عام آدمی کا بجٹ متاثر نہ ہو اشیاء صرف کی قیمتوں میں ایک عام آدمی کی تنخواہ کے مطابق توازن قائم کرنے کو اہم جانا جائے تاکہ پورے ملک کے عوامی کی زندگی میں بہتری کے آثار نمایاں ہوں۔اشیاء صرف کی فراہمی پر سبسڈی دی جائے تاکہ ملک کے تمام طبقات کو فائدہ پہنچے۔ موجودہ وزیر اعظم نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا اعلان کر ڈالا انہوں نے زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو کیوں نظر انداز کیا؟ انہیں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اس ملک میں اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں کمی کی جائے، بجلی کے نرخوں میں کمی کی جائے تاکہ ایک عام آدمی کی زندگی میں کچھ آسانیاں میسر آسکیں کیوں کہ اشیاء صرف اور بنیادی ضرورت کی چیزوں کی قیمت میں کمی سے ملک کے ہر طبقے کو فائدہ پہنچ سکتا ہے جب تک ہمارے ملک کے حکمران ایک عام آدمی کو بہتر زندگی فراہم کرنے کے بارے میں نہیں سوچیں گے ہمارا ملک ایک فلاحی اسلامی ریاست نہیں بن سکے گا۔ ہمارے حکمرانوں کو اسلامی تاریخ کے ان حکمرانوں کے انداز حکمرانی سے سبق سیکھنا چاہیے جنہوں نے بیت المال سے اپنے لیے صرف اتنا وظیفہ مقرر کرایا جس سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہ سکے یہی وجہ تھی کہ جب ایک حاکم نے اپنے لیے کسی قسم کی مراعات حاصل نہ کی تو اس کے ساتھ کام کرنے والوں کی بھی کبھی ہمت نہ پڑی کہ سرکاری خزانے سے کسی بھی قسم کی مراعات کے طلب گار ہوتے آج کا حال یہ ہے ہمارے ملک میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ملک کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے اور کوئی ان کا پرسان حال بھی نہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کا بھی حال یہ ہے کہ ملک کے عوام کو بار بار اس بات کا احساس تو دلاتے ہیں کہ ہمارا ملک دنیا بھر کا مقروض ہے اور ملک کو ہر ماہ ایک بڑی رقم سود کی مد میں ادا کرنی پڑتی ہے لیکن کوئی یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ آخر ملک اس حال کو پہنچا کیوں ہے کوئی بھی یہ ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ انہوں نے سرکاری اخراجات میں کمی کے لیے کوئی مثبت قدم اٹھایا ہی نہیں ہمارے ملک کے بجٹ سازوں نے ہمیشہ عام آدمی کے مسائل کو نظر انداز کیا اسی کی وجہ ہے کہ درد بڑھتا گیا جوں جوں نے دوا کی۔ ہمارے ملک کی موجودہ معاشی حالات جب تک بہتر ہونے کے کوئی آثار نہیں جب تک ہم قرضوں کے چنگل سے جان نہیں چھڑا لیتے اور اس سے جان چھڑانے کے لیے بجٹ سازوں کو ملک کے معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے اقدامات کرنے ہوں گے مراعات یافتہ طبقات کی بیک جنبش قلم مراعات ختم کرنا ہوں گی، تنخواہوں میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ فوری ختم کرنا ہوگا۔
طبقاتی تقسیم روکنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کے عوام میں دولت کی تقسیم کا مساوی نظام متعارف کرایا جائے کیوں کہ دولت کی مساوی تقسیم ہی کسی بھی معاشرہ میں امن اور استحکام کی ضامن ہے اور جب تک ہم اس طرف قدم نہیں بڑھائیں گے معاشرہ میں امن وسکون کا قیام مشکل ہے، دولت کی غیر مساوی تقسیم کا شاخسانہ ہے کہ غربت اور مہنگائی نے ہمارے حوصلہ مندوں کو جرائم کی راہ پر لا ڈالا ہے چوری چکاری، چھینا جھپٹی ایک عام سے بات ہو گئی ہے بغیر محنت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے جوئے خانے آباد ہیں، شراب خانوں پر رش نظر آتے ہیں۔