عدم برداشت سے معاشرے میں لاقانونیت اور عدم استحکام پیدا ہوتا ہے

332

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) عدم برداشت ایک ایسا منفی معاشرتی اور نفسیاتی رویہ ہے جسکی نشوونما کسی بھی معاشرے میں جاری عدم مساوات، لاقانونیت، کوتاہ نظری‘انانیت اور عدم استحکام کی سبب ہوتی ہے۔ سیاسی عدم برداشت بھی اسی معاشرتی رویے کا ایک تسلسل ہے۔یہ رویہ نہ صرف معاشرتی و اخلاقی اقدار کو تباہ کر دیتا ہے بلکہ شخصی و نظریاتی انفرادیت کے حسن کو بھی کچل کے رکھ دیتا ہے۔ جوقومیں تنوع اور رنگارنگی سے عاری ہو جائیں ان میں تخلیقی اور جمالیاتی اہلیت کے ساتھ ساتھ جمہوری اقدار ناپید ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ایک طرح سے آمرانہ طرز فکر و عمل کا رواج ہو جاتا ہے۔ جس معاشرے میں قانون محض ایک مذاق اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں کھلونا ہو، اخلاقی اقدار کی پامالی معاشرے کے اہم اداروں اور شخصیات کے ہاتھوں ہونا معمول کی بات ہو اور بغیر طاقت ، تضحیک اور کردارشکنی کے اپنا موقف منوانا تقریباً نا ممکن ہو وہاں عام لوگ سڑکوں، محلوں اور چوکوں پہ اپنے فیصلے کرنے کے عادی بن جاتے ہیں۔لڑائیاں، نعرے بازیاں اور مفاد پرست سیاست دانوں کوچھوڑ کے اپنا قبلہ درست کریں اور ملک کے لیے سوچیں۔ پیارو محبت کو پروان چڑھائیں اور حالات کی آندھی کو اپنے اوپر اثرانداز نہیں ہونے دیں۔ان خیالات کا اظہار
علما یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا اینڈ دیزائن کی ڈین ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی،ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی کے شعبہ آئی آر کی پروگرام منیجرسدرہ احمد اور ماہرنفسیات ڈاکٹر یحییٰ عامر نے جسارت کے سوال سیاسی عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟۔ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جہاں تیزی سے سیاسی تبدیلیاں ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں وہیں اخلاقی، نفسیاتی اور معاشرتی تبدیلیاں بھی جگہ بنارہی ہیں۔ عوام پر یہ معاشرتی و معاشی معاملات براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں‘ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ آئے روز کی مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘ اقربا پروری عروج پر ہے‘ پڑھے لکھے نوجوان ٹھیلے لگانے پر مجبور ہیں اور ڈگریاں ان کا منہ چڑا رہی ہیں۔ مقتدر حلقے اپنے چاہنے والوں میں نوکریاں بانٹ دیتے ہیں اور حق دار بے روزگار پھر رہے ہیں‘ ہمارا نچلا طبقہ بْری طرح جکڑا ہوا ہے ۔ ان کی زندگیاں جتنی اذیت ناک ہیں اور حکمران اس کے عشر عشیر سے بھی واقف نہیں۔ ظاہر ہے جب ایک شخص اپنے بھوکیبچوں کے لیے خوراک کا بندوبست نہیں کرپاتا تو وہ کیا کرے گا؟ پھر اس کا دماغ منفی باتیں سوچتا ہے، غلط روش پر چل پڑتا ہے، پھر وہ لڑتا بھی ہے، دست و گریباں بھی ہوتا ہے حتیٰ کہ کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔یہ تو تصویر کا ایک رْخ ہے جس میں بنیادی ضروریات کی فراہمی نہ ہونے پر ردعمل سامنے آتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں موجود مختلف قومیتوں کے درمیان ہر وقت ایک کھچائو اور تناو کی کیفیت رہتی ہے جو کہ اکثر خانہ جنگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ املاک کا نقصان اور قتل و غارت ہے۔ یہ عدم برداشت ملک کے لیے زہر قاتل ہے۔ یہ تو فرمان خداوندی ہے کہ ’’جیسی عوام ہوگی ویسا حکمران ہوگا‘‘۔ اب دیکھئے ہمارے حکمران کس قسم کے ہیں‘ اسمبلیاں کیا مناظر پیش کرتی ہیں‘ سیاست دان کس طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ جب ایسے اخلاق باختہ، دولت کے پجاری اور موروثی نمائندے پارلیمنٹ میں جائیں گے تو وہ عوام کے لیے کیا مثال بنیں گے؟ ان کی گالم گلوچ، دھکم پیل اور بدتمیزیوں سے عوام بھی بہت کچھ سیکھ رہے ہیں اور عام زندگی میں اس کا عملی مظاہرہ پیش کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہمارا حکمران طبقہ باکردار ہوتا، ایمان داری سے اور منصفانہ طریقے سے جائز لوگوں کو نوکریاں، عہدے ملتے، عوام کی سہولت کا خیال رکھا جاتا، رہنے کو گھر، تعلیم اور کھانے کا انتظام ہوتا تو عوام بھی خوش ہوتے، ملک میں بھی سکون ہوتا، مگر یہاں تو سیاستدانوں کی دولت کی ہوس کسی طور پوری نہیں ہورہی ‘ وطن عزیز میں تیزی سے بڑھتی ہوء سیاسی انتہا پسندی اور عدم برداشت ہمارے گھروں ، خاندانوں اور دفتروں تک آ پہنچی ہے ‘ باہمی احترام اور تہذیب قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ گیا، نفسا نفسی کا عالم ہے۔ہمیں ان مسائل کا حل نکالنا ہے۔ اصولاً تو سیاستدان ہی مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں مگر اب وہاں سے بھی مایوسی ہے۔ ایسے میں والدین ، اساتذہ و علما کرام کا کام ہے کہ وہ اس بگاڑ کو ختم کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر یں۔ من حیث القوم ہم ایک قوم نہیں ہجوم بن گیے ہیں اور دنیا میں اپنا تماشا بنا رہے ہیں۔ مفاد پرست سیاست دانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔ جب تک ہم منافق، مفاد پرست اور ایماندار کی پہچان نہیں کریں گے تو پھرایسے ہی ہوس زر میں مبتلا لالچی حکمرانوں کے ہاتھوں کھلونے بنے رہیں گے۔ ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کی پروگرام منیجرسدرہ احمدکا کہنا تھا کہ عدم برداشت ایک ایسا منفی معاشرتی اور نفسیاتی رویہ ہے جسکی نشوونما کسی بھی معاشرے میں جاری عدم مساوات، لاقانونیت، کوتاہ نظری, انانیت اور عدم استحکام کی سبب ہوتی ہے۔ سیاسی عدم برداشت بھی اسی معاشرتی رویے کا ایک تسلسل ہے۔ جس معاشرے میں قانون محض ایک مذاق اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں کھلونا ہو، اخلاقی اقدار کی پامالی معاشرے کے اہم اداروں اور شخصیات کے ہاتھوں ہونا معمول کی بات ہو اور بغیر طاقت ، تضحیک اور کردارشکنی کے اپنا موقف منوانا تقریباً نا ممکن ہو ادھر عام لوگ سڑکوں، محلوں اور چوکوں پہ اپنے فیصلے کرنے کے عادی بن جاتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف معاشرتی و اخلاقی اقدار کو تباہ کر دیتا ہے بلکہ شخصی و نظریاتی انفرادیت کے حسن کو بھی کچل کے رکھ دیتا ہے۔ قومیں جو تنوع اور رنگارنگی سے عاری ہو جائیں ان میں تخلیقی اور جمالیاتی اہلیت کے ساتھ ساتھ جمہوری اقدار ناپید ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ایک طرح سے آمرانہ طرز فکر و عمل کا رواج ہو جاتا ہے۔ سیاست کا حسن مختلف آرا، انداز فکرو نظر اور وابستگیوں کو قبول کرتے ہوئے ایک آزاد ، کشادہ اور رجعت پسند معاشرے تشکیل کرنے میں ہے۔، عدم برداشت سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں اس آرٹ سے محروم کردیتا ہے، نتیجتاً معاشرہ تفریق، نفرت اور انانیت زدہ ہو کہ شدید گھٹن اور تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اس وقت پاکستان میں جاری سنگین سیاسی بحران نے عوام و خواص سب کو شدید ذہنی خلفشار کا شکار کر دیا ہے، قانون کی بے حسی اور لاتعلقی نے لوگوں کو گومگو کی کیفیت میں ڈال کے ان کو بلاوجہ ذہنی کرب میں مبتلا کر رکھا ہے جو کہ غصہ، انتشار اور عدم برداشت کی صورت میں بازاروں، محفلوں، سڑکوں، ٹی وی نشریات اور سوشل میڈیا پہ عام رائج ہوچکا ہے۔ لوگ معمولی تنقید اور اختلاف رائے پہ اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں سے برگشتہ ہو جاتے ہیں، ہر ایک گروہ دوسرے کو سرے سے رد کردینے میں خود کو فاتح محسوس کرتاہے۔ اس رویے کی حوصلہ شکنی کرنے کے ساتھ ساتھ قانونی و انتظامی اداروں کو اپنے طرز عمل میں ہنگامی بنیادوں پر بہتری لانی ہوگی تا کہ مایوسی، عدم اعتماد اور عدم برداشت کی وبا معاشرے کے آگے بڑھنے کے تسلسل کو پوری طرح گھن نہ لگا دے۔ماہر نفسیات ڈاکٹر یحیی عامر کا کہنا تھاکہ ہمارا معاشرہ سیاسی، مذہبی، لسانی اور فرقہ کی بنیاد پر تقسیم ہے۔ جتنی تقسیم ہے وہ ہمارے لیے خطرناک ہے۔ تقسیم کی وجہ سے اس کا اثر افراد کے مزاج پر پڑ رہا ہے۔ جس کی واضح مثال سوشل میڈیا پر آپ کو نظر آجائے گی۔ جس کی وجہ سے معاشرہ میں عدم تعاون اور عدم برداشت کی کیفیت ہے۔ اس کی شاید بڑی وجہ سوشل میڈیا بھی ہے۔ اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو شاید معاشرے میں سیاسی عدم برداشت کے اثرات اتنے زیادہ نہ پڑتے۔ اب خود دیکھیے اس کی مثال یہ ہے کہ آپ کو کوئی منفی پوسٹ سوشل میڈیا پر چلا دیں تو گھنٹوں میں وائرل ہوجاتی ہے۔ سیالکوٹ میں فیکٹری منیجر کو زندہ جلانے کا واقعہ بھی ذاتی نوعیت کا تھا مگر اس کو مذہبی بنا کر پیش کیا جس سے دنیا بھر میں ہماری ساکھ کو نقصان پہنچا۔ جب ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے تو یقینا ہر انسان کی رائے دوسرے انسان سے مختلف ہوسکتی ہے۔ اور ہمیں بطور اچھے شہری ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔