روزہ اور عبادت کا حقیقی فلسفہ سمجھنے سے معاشرے میں تبدیلی ممکن ہے

111

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)رمضان میں روزے اور عبادت کے حقیقی فلسفے اور پیغام کو سمجھنے سے معاشرے میں بھرپور تبدیلی آسکتی ہے۔رمضان میں روزے کے دوران کھانے پینے سے رکنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان حلال سے رکنے سے زیادہ حرام سے بچے اور حرام سے مراد غصہ ، تکبر، گالم گلوچ ، اور حرام خوری ہے۔ہمارا معاشرہ جن برائیوں میں گھرا ہوا ہے اْس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ رمضان المبارک کے فیوض و برکات حاصل کرکے اسلامی عقائد کو اپنایا جائے اور اعمال صالحہ پر عمل پیرا ہوکر معاشرہ کا ایک اچھا فرد ثابت ہو ۔ان خیالات کا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی زبیر،بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر گلناز نعیم اورعنبر مہر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی زبیر کا کہنا تھا کہ رمضان میں روزے اور عبادت کے حقیقی فلسفے اور پیغام کو سمجھنے سے معاشرہ میں بھرپور تبدیلی آسکتی ہے۔رمضان میں روزہ کے دوران کھانے پینے سے رکنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان حلال سے رکنے سے زیادہ حرام سے بچے اور حرام سے مراد غصہ ، تکبر، گالم گلوچ ، اور حرام خوری ہے۔ جب انسان حلال یعنی کھانے پینے سے اجتناب کرنے کا اہتمام کرتا ہے تو اس سے زیادہ ضرور ی ہے کہ روزے میں حرام یعنی غصہ ،گالم گلوچ تکبر اور بے جا سختی وبداخلاقی سے احتراز کرے۔بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر گلناز نعیم کا کہنا تھا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت 381اور481 میں اللہ تعالی نے روزے کی فرضیت کا حکم دیا اور اس کا مقصد حصول تقویٰ قرار دیا۔ تقویٰ دراصل نفس کو برائیوں سے روکنا ہے۔ ایک صحابی نے رسول ؐ سے فرمایا کہ مجھے ایسا حکم دیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اُس سے نفع دے۔آپ ؐ نے ان سے فرمایا روزے رکھا کرو کہ اس کے مثل کوئی عمل نہیں۔ ملک و ملت کی ترقی و تبدیلی تب ہی ممکن ہو سکے گی جب پہلے تو ہم خود نفس کی برائیوں سے پاک ہوں اور بحیثیت قوم اخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ کریں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھیں، ان پر اپنا مال خرچ کریں۔ گناہوں اور شیطانی وسوسوں سے خود کو بچا کر اپنے ملک و ملت اور اس کے باسیوں کے ساتھ جھوٹ، دھوکا دہی، ناانصافی، ظلم و ستم اور دیگر تمام اخلاقِ رزیلہ سے اجتناب کریں۔ ماہ رمضان کی یہ خوبی ہے کہ اس ماہِ بابرکت میں اللہ کی رحمت و بخشش کا دائرہ کار نہایت وسیع ہوجاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے یہ ماہ مبارک عطا فرما کر مسلمانوں کی سال بھر کی تربیت کا اہتمام فرمادیا ہے اور انہیں گنتی کے چند دن قرار دیتے ہوئے مسلمانوں پر روزے فرض قرار دے دیے۔یہ چند دن اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کر دیتے ہیں۔ اس دوران روز و شب صیام و قیام میں گزرنے سے جسمانی اور روحانی تربیت کا بہترین انتظام ہوجاتاہے۔رسول اللہ ؐ کا فرمانِ مبارک ہے کہ جس کسی نے اس مہینہ میں روزہ دار کا روزہ افطار کرایا تو یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہو گا اور روزہ افطار کرانے والے کو ویسا ہی روزے کا ثواب ملتا ہے جیسا کہ خود روزہ رکھنے والے کو، رمضان کی بابرکت ساعات میں اپنے اور ملک کے لیے انفرادی و اجتماعی دعا کرنا۔ بالخصوص لیلۃالقدر میں ملکی سلامتی و استحکام کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرنا۔ مزید یہ کہ انسان کا اپنا اور اپنے خاندان کے تمام افراد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا، صدقہ فطر ادا کر کے ملک کے مفلس افراد کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ عنبر مہر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ رمضان عربی لفظ جس کے معنی جھلسا دینے والااور جلا دینے والا کے ہیں۔اس ماہ مبارک میں اللہ سبحان تعالی اپنے فضل و کرم اور رحمت سے مسلمانوں کے گناہوں کو جھلسا اور جلا دیتے ہیں۔اور ان کی بخشش فرمادیتے ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے کہ رمضان وہ (مبارک) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے رہنمائی، ہدایت اور حق وباطل میں تمیز کرنے کا ذریعہ ہے، پس جو کوئی یہ (مبارک) مہینہ پائے اُسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے۔ہمارا معاشرہ مختلف معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سود،رشو ت خوری،سفارش، جھوٹ،ملاوٹ، تعصب، اقربا پروری،خیانت اور دیگر سماجی برائیاں عام پائی جاتی ہیں۔ ہم انسان ہی اچھائی یا برائی کی طرف اپنی نفسانی خواہشات ، بری سوسائٹی ،الیکٹرانک میڈیا ،سوشل میڈیا ِاور انٹرنیٹ کا غلط استعمال یہ سب ہم خود کرتے ہیں ،ان برائیوں کی وجہ سے پورا معاشرہ پریشانیوں کا شکار ہے۔ کیونکہ گناہوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے بھی فیصلے پریشانیاں اور مصیبتیں آتی ہیں۔ملک و ملت میں تبدیلی کسی فردِ واحد کا کام نہیں معاشرے میں موجود ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔آج ہمارا معاشرہ جن برائیوں میں گھرا ہوا ہے اُس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ رمضان المبارک کے فیوض و برکات حاصل کرکے اسلامی عقائد کو اپنایا جائے اور اعمال صالحہ پر عمل پیرا ہوکر معاشرہ کا ایک اچھا فرد ثابت ہو ،اور پھر اسی اچھائی کی دعوت کو عزیز واقارب میں دوست واحباب میں حکمت وتدبر کے ساتھ عام کرنے کی سعی کرے اور اس راہ میں دوستوں کی یا عزیز واقارب کی کڑوی کسیلی باتوں پر صبر کا مظاہر ہ کرے ،ایسے لوگ ہی دنیاوی واُخروی کامیابی کے حامل ہوں گے۔ احکام کی پابندی کی برکت سے بندگانِ خدا کے قلوب کا تزکیہ اور اصلاح ہوجاتی ہے تو انفاق فی سبیل اللہ کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کا حامی وناصر ہو۔آمین