متحدہ کا اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان تشویش کا باعث ہے

289

کراچی (تجزیاتی رپورٹ: محمد انور) متحدہ قومی موومنٹ کاپی ٹی آئی کی حکومت سے علیحدہ ہونا جس قدر متحدہ اپوزیشن کے لیے باعث مسرت ہے، اس قدر کراچی کی 3 کروڑ کی آبادی کے لیے تشویش اور متحدہ کی سیاست کے لیے تنزلی کا سبب بھی بن سکتی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور متحدہ کی حکومت قائم ہوئی تو شہر امن و امان سمیت دیگر مسائل کا شکار ہوجائے گا۔ اگرچہ متحدہ
قومی موومنٹ کے حکومتی اتحاد سے اس کا علیحدہ ہونے کا فیصلہ بھی خود متحدہ کے مستقبل کے لیے اطمینان بخش نہیں لگتا گو کہ ممکنہ طور پر متحدہ کو موجودہ اپوزیشن کی متوقع حکومت میں حصہ ملنے کی بھی توقع ہے مگریہ نئی حکومت بھی کتنے دن قائم رہے گی۔ خیال رہے کہ چند روز قبل تک متحدہ کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے پیپلز پارٹی کی سندھ میں 13 سال سے جاری حکومت پرشدید تنقید کی تھی۔ سیاسی شعوررکھنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ متحدہ کا تحریک انصاف کی حکومت کے اتحاد سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ ایک مشکل ترین فیصلہ ہوگا جو اسٹیبلشمنٹ کے عناصر کے اشارے کے نتیجے میں ہی سامنے آیا ہے۔ متحدہ کے رکن قومی اسمبلی اور مستعفی وفاقی وزیر فروغ نسیم کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں، ان کا بھی تحریک انصاف حکومت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کے تازہ اسکرپٹ کا نتیجہ ہے جو متحدہ کو موجودہ حالات میں نئی چال کے طور پر دیا گیا ہوگا۔ ق لیگ کے بارے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی جماعت ہونے کا تاثر عام ہے، جس نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لیے پرویز الٰہی کو نامزد کرنے اور عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو مجبور کردیا تھا۔ بہرحال حتمی طور یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت اگر گرے گی تو اس کی وجوہات میں وزیر اعظم کی اپنی کمزوریاں نمایاں رہیں، جس نے اسٹیبلشمنٹ کو واضح طور پر اپنا روایتی کردار ادا کرنے سے دور رکھا ہے۔