یک قطبی عالمی نظام کا ڈھلتا سایہ

418

ستاون مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی کی باون سالہ تاریخ میں پہلی بار چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کی۔ چینی وزیر خارجہ کی او آئی سی اجلاس میں شرکت ایک ایسے موقع پر ہوئی جب دنیا دو واضح بلاکوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور سرد جنگ کا ماحول پوری طرح لوٹ کر واپس آگیا ہے۔ دونوں بلاک چھوٹے، کمزور اور غیر جانبداری پر مصر ملکوں کو مختلف طریقوں سے اپنی جانب کھینچنے کے لیے کوشاں ہیں۔ چین سرمایہ کاری کو سفارت کاری کا زینہ بنا رہا ہے تو امریکا زیادہ تر دھونس دبائو کے ذریعے ملکوں کو اپنے ساتھ چپکائے رکھنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ ایسے میں ڈیڑھ ارب آبادی اور ستاون ملکوں کی تنظیم اقوام متحدہ کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا عالمی فورم ہے۔ یہ فورم بطور تنظیم جس جانب جھکائو اختیار کرے گا وہ پلڑا یقینی طور پر بھاری ہوگا۔ او آئی سی کا یہ اجلاس پاکستان کی صورت میں ایک ایسے ملک میں ہو رہا تھا جہاں امریکا اور چین کشمکش کا ایک دور گزار چکے ہیں اور پاکستان چین کو چھوڑ کر مغربی بلاک کا ساتھ دینے سے انکاری ہو چکا ہے۔ مغرب کی کوششیں بہرطور اب بھی جاری ہیں۔ پاکستان کے بہت سے مسائل کی وجہ یہ عالمی کھینچا تانی بھی ہے۔
او آئی سی اجلاس میں مغرب سے بیزاری کا رنگ نمایاں رہا اور اس کا اظہار وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کے ہر لفظ اور جملے سے ہوتا رہا۔ جنہوں نے اپنے روایتی انداز میں مغرب کے سیاسی رویوں اور ثقافتی طور طریقوں پر تنقید کی اور روشن خیال اعتدال پسندی کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ امریکا نے بلاشبہ اول تو او آئی سی میں چینی وزیر خارجہ کی یوں مہمان ِ خصوصی کے انداز میں شرکت کو پسند نہیں کیا ہوگا بلکہ کوشش کی ہوگئی زیادہ تر مسلمان ملک وزرائے خارجہ کے بجائے اجلاس میں شرکت کا درجہ کم کریں۔ بھارت کی طرف سے بعض عرب ملکوں پر اس مقصد کے لیے دبائو ڈالنے کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔ اس نادیدہ دبائو کے باوجود او آئی سی اجلاس میں چینی وزیر خارجہ کی شرکت اس بات کا پتا دیتی ہے کہ مسلمان دنیا کا مجموعی مزاج مغرب کی پالیسیوں کے باعث خاصا بگڑ چکا ہے۔ اس لیے مسلمان دنیا کا سب سے بڑا اسٹیج چینی وزیر خارجہ کے لیے کھول دیا گیا۔ جس دن چینی وزیر خارجہ اس اجلاس میں شریک ہو رہے تھے تو امریکا کی طرف سے ایسے چینی حکام پر پابندیوں کا اعلان کیا جا رہا تھا جو ان کے بقول سنکیانگ میں مسلمانوں پر ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بعد میں ایسی ہی پابندیوں کا اطلاق میانمر کے کچھ حکام پر کیا گیا جو ان کے بقول مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث ہیں۔ گویا کہ مغرب افغانستان سے فلسطین اور کشمیر سے شام تک بالواسطہ یا بلا واسطہ کئی مقتل سجانے کے باوجود جہاد افغانستان کی طرح ’’مسلم کارڈ‘‘ استعمال کرنے کا بدستور خواہش مند ہے۔ اب شاید پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔
مسلمان دنیا نے سرد جنگ کی آخری معرکہ آرائیوں میں جم کر مغرب کا ساتھ دیا۔ افغانستان اس تعاون کا مضبوط مرکز رہا۔ جہاں مسلمان نوجوان دنیا بھر سے جمع ہو کر سوویت افواج کے خلاف لڑتے رہے۔ ان نوجوانوں کو عربوں کا سرمایہ دستیاب تھا اور او آئی سی نے ہر عالمی فورم پر مجموعی طور پر اپنا وزن امریکا او ر اس کے حلیفوں کے پلڑے میں ڈالا۔ اس دور میں صدام حسین، قذافی اور حافظ الاسد جیسے سوویت دوست راہنما لکیر کے دوسری جانب کھڑے نظر آتے رہے مگر ان کی آواز نقار خانے میں توتی کی آواز ہی ثابت ہوتی رہی۔ جانی و مالی طور پر اپنا سب کچھ نثار کرنے کے باوجود جب سردجنگ ختم ہوئی تو کمیونزم کا خطرہ ٹلتے ہی مغرب نے زیادہ بے رحمی کے ساتھ اسلام کو نشانے پر رکھ لیا۔ یوں تین عشروں میں مسلمان دنیا پر جو کچھ بیتی اس کا ردعمل مسلمان دنیا کے تحت الشعور میں جھلک رہا ہے۔ جس یونی پولر نظام کے منظر کو انہوں نے دھوم دھام سے تشکیل دینے میں اپنا حصہ ڈالا تھا تیس برس بعد وہ اس نظام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے تھے اور ایک چینی وزیر خارجہ کو تاریخ میں پہلی بار اپنے اجلاس میں مدعو کرکے دنیا کو دوبار کئی پولز کی طرف دھکیلنے میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔
جس دن اسلام آباد میں چینی وزیر خارجہ او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کررہے تھے عین اسی وقت چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میں اس ساری صورت حال کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیا جا رہا تھا۔ گلوبل ٹائمز اپنے آن لائن ایڈیشن میں ’’چینی وزیر خارجہ کی او آئی سی میں پہلی با رشرکت، چین اور اسلامی دنیا کی قربت‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں ماہرین سیاسیات، دانشوروں کی آراء میں یہ بات سامنے آرہی تھی کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چینی وزیر خارجہ نے او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کی گو کہ یہ شرکت اس وقت ہوئی جب او آئی سی کی میزبانی چین کا دیرینہ دوست پاکستان کر رہا تھا مگر یہ او آئی سی کے اجتماعی فیصلے کا نتیجہ تھا۔ اس سے پہلے او آئی سی کے کئی اہم رکن ملکوں ترکی ایران اور سعودی عرب کے نمائندوں نے چین کا دورہ کیا تھا اور چین کے مڈل ایسٹ سے متعلق نے سعودی عرب کا دورہ کرکے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کی تھی۔
اس طرح پہلے سے ماحول سازی کی گئی تھی۔ اخبار نے لکھا کہ جب سے چین ایک بڑی طاقت بن کر اُبھرا ہے زیادہ سے زیادہ ملکوں کی خواہش ہے کہ وہ چین کے ساتھ مل کر چلیں۔ افغانستان سے عجلت میں بھاگنے اور یوکرین کے معاملات کو اس حد تک خراب کرنے کے بعد کہ اب یہ جنگ میں ڈھل گئے بہت سے ملکوں نے چین کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گلوبل ٹائمز لکھتا ہے کہ امریکا نے عرب بہار میں عدم استحکام پیدا کر کے اور نیو کروسیڈ جیسی باتیں کرکے مسلمان دنیا کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کیا۔ جس نے مسلمان دنیا کو مغرب سے نالاں کرکے چین کے ساتھ چلنے پر آمادہ کیا۔ امریکا نے سنکیانگ کے مسلمانوں کا نام استعمال کرکے چین اور مسلمان دنیا میں دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی مگر یوں لگتا ہے کہ یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔ دلچسپ بات یہ ہے معروف دانشوروں کے خیالات پر یہ مضمون بتا رہا ہے کہ او آئی سی اور اس کے رکن ملکوں سے زیادہ خود چین اس واقعے کو بڑا اور غیر معمولی سمجھ رہا ہے۔